Maktaba Wahhabi

375 - 503
میرا شمار صفہ کے مساکین میں ہوتا تھا اور میں پیٹ بھر کھانے کے بدلے ہمیشہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتا، جب وہ غائب ہوتے میں حاضر ہوتا، جب وہ بھول جاتے میں یاد رکھتا۔ ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنا کپڑا پھیلائے رکھے گا یہاں تک کہ میں اپنی گفتگو پوری کر لوں پھر وہ اپنا کپڑا سمیٹ لے تو وہ میری تمام باتیں یاد کر لے گا۔‘‘ اس پر میں نے اپنی چادر بچھا دی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گفتگو مکمل فرما لی تو میں نے اسے اپنے سینے کے ساتھ لپیٹ لیا۔ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو سے کچھ بھی نہ بھولا۔[1] دوسری روایت میں ہے: ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنا کپڑا بچھائے یہاں تک میں اپنی گفتگو پوری کر لوں پھر وہ اسے اپنی طرف سمیٹ لے تو وہ کبھی بھی کوئی ایسی بات نہیں بھولے گا جو اس نے مجھ سے سماعت کی ہو گی۔‘‘ میں نے ایسا ہی کیا، مجھے اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں کوئی ایسی بات نہیں بھولا جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کی۔[2] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ کی شفاعت سے سب سے بڑھ کر سعادت کون حاصل کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابوہریرہ! میرا خیال تھا کہ اس بارے میں مجھ سے تم سے پہلے کوئی شخص سوال نہیں کرے گا اور یہ اس لیے کہ تم میری حدیث کے بڑے حریص ہو۔ قیامت کے دن میری شفاعت کی سعادت سب سے زیادہ اس شخص کو حاصل ہو گی جو خالص دل سے لا الہ الا اللّٰه پڑھے گا۔[3] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کامل حاذق حافظ تھے، وہ جو کچھ روایت کرتے وہ انہیں حفظ و ضبط ہوتا اور جو کچھ بھی بیان کرتے بڑی ذمہ داری اور باریک بینی سے بیان کرتے۔ ان میں دو ایسی خوبیاں ایک ساتھ موجود تھیں جن میں سے ایک دوسری کی تکمیل کرتی ہے، پہلی: علمی وسعت اور کثرت روایات، دوسری: قوت حفظ اور حسن ضبط۔ یہ وہ عظیم وصف ہے جس کے اہل علم متمنی ہوا کرتے ہیں۔[4] مروان کے کاتب ابو زعیزعہ نے ہمیں ایک ایسی چیز بتائی ہے جس سے ان کے حفظ و اتقان کا اثبات ہوتا ہے۔ اس کا بیان ہے: مروان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سوالات کرنے لگا اور مجھے پلنگ کے پیچھے بٹھا دیا ، جو کچھ سنتا اسے لکھتا جاتا۔ پھر سال ختم ہونے پر انہیں دوبارہ بلایا اور پھر انہیں پردے کے پیچھے بٹھا کر ان سے اس کتاب کے بارے میں سوالات کرنے لگا۔ انہوں نے اپنے جوابات میں نہ تو کوئی کمی بیشی کی اور نہ ہی تقدیم و تاخیر۔[5] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ صرف راوی حدیث ہی نہیں تھے بلکہ ان کا شمار اپنے زمانے کے قرآن و سنت اور اجتہاد کے رؤسائے علم میں ہوتا تھا۔ ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحبت و رفاقت نے انہیں دینی فہم و شعور عطا کرنے اور
Flag Counter