Maktaba Wahhabi

374 - 503
حسن خلق کو مزید نمایاں کیا، اکثر اوقات جب مروان انہیں مدینہ منورہ پر اپنا جانشین بناتا تو وہ اپنے گدھے پر کمبل ڈال کر اور اس کے منہ میں عروف کھجور کی چھال سے بنی رسی ڈال کر اس پر سوار ہوتے اور گشت کرنے کے لیے بازار میں نکلتے اس دوران اگر راستے میں کسی کو ملتے تو فرماتے: راستہ چھوڑ دو، امیر آ رہا ہے۔[1] ایک دفعہ جب وہ مروان کی طرف سے مدینہ منورہ کے امیر تھے اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے ہوئے بازار سے گزر رہے تھے کہ راستے میں ثعلبہ بن ابو مالک قرظی سے ملاقات ہو گئی تو اس سے فرمانے لگے: ابن مالک! امیر کے لیے راستہ کھلا کر دو، اس پر ابن مالک کہنے لگے: اللہ تم پر رحم فرمائے، یہ راستہ کافی ہے، یہ سن کر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: امیر کے لیے راستہ کھلا کر دو اس نے لکڑیوں کا گٹھا اٹھا رکھا ہوتا ہے۔[2] انہیں بچوں کو خوش کرنا بڑا پسند تھا، جب بچوں کو رات کے وقت دیہاتی لوگوں کا کوئی کھیل کھیلتے دیکھتے اور انہیں ان کی آمد کا پتا نہ چلتا تو وہ زمین پر گر کر دیوانوں کی طرح تڑپنے لگتے جس سے بچے گھبرا کر ہنستے ہوئے ادھر ادھر بھاگ جاتے۔[3] ابو رافع فرماتے ہیں: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کبھی کبھی مجھے رات کو کھانے کی دعوت دیتے تو فرماتے: گوشت کاٹنے کا کام امیر کے لیے چھوڑ دو۔ دیکھنے پر معلوم ہوتا کہ وہ تیل سے تیار کردہ ثرید ہے۔[4] ي: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی علمی زندگی:… ابوہریرہ رضی اللہ عنہ چار سال تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے، اس دوران انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کچھ سماعت کیا۔ ایک ایک سنت کا مشاہدہ کیا اور اپنے قلب و ذہن میں تطبیق شریعہ کو محفوظ بنایا۔ ان کے پیش نظر صرف علم کا حصول اور دین میں سوجھ بوجھ حاصل کرنا تھا۔[5] ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بہت سارے معجزات نبویہ اپنے ذہن میں محفوظ کر رکھے تھے۔[6] ان سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ’’کیا تم اپنے ساتھیوں کی طرح مجھ سے مال غنیمت سے کچھ نہیں مانگو گے؟‘‘ میں نے کہا: میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ آپ مجھے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم کی تعلیم دیں۔ اس پر آپ نے میرے جسم سے چادر اتاری اور اسے میرے اور اپنے درمیان بچھا دیا، پھر مجھ سے احادیث بیان کرنے لگے، یہاں تک کہ جب میں نے آپ کی ساری گفتگو سمیٹ لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اسے اپنی طرف لپیٹ لے۔‘‘ پھر میری یہ کیفیت ہو گئی کہ آپ نے مجھے جو کچھ بھی بتایا اس سے ایک حرف بھی نہ بھولا۔[7] وہ فرمایا کرتے تھے: تم کہتے ہو کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت احادیث بیان کرتا ہے۔ تمہارا یہ بھی کہنا ہے کہ انصار و مہاجرین کو کیا ہوا وہ ابوہریرہ کی طرح احادیث بیان نہیں کرتے۔ اصل بات یہ ہے کہ میرے مہاجرین بھائی کاروبار میں مصروف رہتے جبکہ انصاری بھائیوں کو ان کے اپنے کام مصروف عمل رکھتے۔
Flag Counter