Maktaba Wahhabi

364 - 503
۴۔ سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ:…جعفر بن سلیمان ضبعی سے مروی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے زیاد کی وفات کے چھ ماہ بعد تک سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا والی بنائے رکھا اور پھر انہیں معزول کر دیا، لوگوں نے ان پر یہ جھوٹا الزام لگایا کہ انہوں نے کہا ہے: اللہ معاویہ پر لعنت کرے۔ و اللہ! اگر میں اللہ تعالیٰ کی اس طرح اطاعت کرتا جس طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کی کرتا رہا تو اللہ مجھے کبھی عذاب نہ دیتا۔[1] مگر حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب یہ خبر کہ انہوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو گالی دی تھی اس صحابی جلیل کے بارے میں محض کذب بیانی ہے۔ اس بارے ابن کثیر فرماتے ہیں: ان کی طرف منسوب یہ بات درست نہیں ہے۔[2] نیز اس خبر کے راوی جعفر بن سلیمان ضبعی کے بارے میں ابن حجر رقمطراز ہیں: وہ زاہد و صادق ہے مگر وہ تشیع کی طرف مائل تھا،[3] اسلامی تاریخ کا چہرہ داغ دار کرنے میں تشیع کا اثر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔[4] ۵۔ عبداللّٰه بن عمرو بن غیلان ثقفی:…طبری رقمطراز ہیں: اس سال (۵۴ھ) معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کو بصرہ کی ولایت سے معزول کر کے ان کی جگہ عبداللہ بن غیلان کو اس کا عامل مقرر کر دیا۔[5] ۶۔ عبیداللّٰه بن زیاد:…طبری فرماتے ہیں: اسی سال (۵۴ھ) معاویہ رضی اللہ عنہ نے عبیداللہ بن زیاد کو والی خراسان مقرر کیا۔[6] پھر ۵۵ھ میں انہوں نے عمرو بن غیلان کو بھی بصرہ سے معزول کر کے اس کا والی ابن زیاد کو بنا دیا،[7] اور اس سے فرمایا: تمہارے لیے بھی میرے وہی احکام ہیں جو دوسرے عہدے داروں کے لیے ہیں، اس کے علاوہ تیری میرے ساتھ قرابت کی وجہ سے میں تجھے خصوصی تلقین کرتا ہوں کہ تھوڑوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے زیادہ کو نہ چھوڑنا، اور اپنا محاسبہ خود آپ کرنا، تیرے اور تیرے دشمن کے درمیان جو بھی معاملہ ہو اس میں ایفائے عہد کا خیال رکھنا اس سے تجھ پر بھی اور پھر ہم پر بھی بوجھ کم پڑے گا اور لوگوں کے لیے اپنا دروازہ کھلا رکھنا اس سے تمہیں ان کے حالات سے آگاہی رہے گی۔ جان لو کہ تم اور وہ برابر ہیں۔ جس کام کا بھی ارادہ ہو اسے لوگوں کے سامنے پیش کرنا مگر کسی طمع خور کا اس میں کوئی کردار نہ ہو اور جب اس ارادہ پر عمل کرنا ممکن ہو تو پھر کوئی شخص تیری رائے کو ردّ نہ کرنے پائے، اگر جنگ میں تیرے دشمن زمین کے ظاہر پر تجھ پر غالب آ جائیں تو وہ زمین کے اندر تجھ پر غالب نہیں آ سکتے، اگر کبھی تیرے رفقاء پر ایسا وقت آن پڑے کہ تجھے اپنی جان سے ان کی مدد کرنا پڑے تو ایسا ضرور کرنا۔[8] دوسری روایت میں ہے اللہ سے ڈرتے رہنا اور اس پر کسی چیز کو ترجیح نہ دینا اس لیے کہ تقویٰ میں اجر و ثواب ہے، اپنی عزت و آبرو کو
Flag Counter