Maktaba Wahhabi

363 - 503
قابل ذکر ہیں۔ زیاد کی طرف سے ایک مسجد کے قریب کوئی دوسری مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ مسجد بنو عدی زیاد کے قریب ترین واقع تھی۔[1] ابن فقیہ ذکر کرتے ہیں: زیاد نے سات مسجدیں تعمیر کروائیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اس کے نام سے موسوم نہیں تھی، زیاد کی تعمیر کردہ ہر مسجد کا صحن گول ہوتا تھا۔[2] اس نے بصرہ کی مسجد میں بہت زیادہ توسیع کی اور اسے اینٹوں اور چونے سے تعمیر کیا، اس پر ساج کی چھت ڈالی اور اس کے مینار پتھر سے بنوائے۔[3] زیاد شہر کی صفائی ستھرائی کا بڑا اہتمام کرتا، گھروں کی صفائی کی ذمہ داری افراد خانہ پر عائد کی جاتی اور اس میں کوتاہی کرنے والوں کو سزا دی جاتی، بارش کے بعد گھر کا سربراہ گھر کے سامنے سے مٹی کیچڑ اٹھانے کا ذمہ دار تھا اور اگر کوئی ایسا نہ کرتا تو وہ کیچڑ وغیرہ اس کے گھر کے اندر پھینک دیا جاتا، اسی طرح لوگ اپنی گلیوں اور بازاروں کو بھی صاف کرنے اور انہیں صاف رکھنے کے ذمہ دار تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ خرید کردہ غلاموں کی اس کام کی انجام دہی پر ڈیوٹی لگائی گئی تھی۔[4] یہ روایت اس بات کی طرف اشاہ کرتی ہے کہ ملازمین صفائی ستھرائی کے کام کی نگرانی کے لیے مامور تھے اور یہ کہ زیاد کو راستوں کی صفائی کا گہرا احساس تھا، لہٰذا اس نے اس مقصد کے لیے کچھ غلام خریدے جن کی ذمہ داری گلیوں اور بازاروں کی صفائی کو یقینی بنانا تھا۔[5] زیاد کو زرعی ترقی میں خصوصی دلچسپی تھی اس مقصد کے لیے اس نے کئی ڈیم تعمیر کروائے اور نہریں کھدوائیں۔[6] زرعی پیدوار بڑھانے اور زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لیے مزارعین کو دو سال کے لیے ساٹھ ساٹھ جریب زرعی زمین دیتا اگر اس دوران وہ اسے آباد کر لیتا تو زمین کا مالک بن جاتا اور اگر وہ اس میں ناکام رہتا تو زمین اس سے واپس لے کر کسی اور کو دے دی جاتی۔[7] زیاد نے دریائے فرات کے دونوں کناروں میں رابطہ کے لیے کوفہ کے پل کو نئے سرے سے اور مضبوط بنیادوں پر تعمیر کروقایا جبکہ قبل ازیں اسے لکڑی سے تعمیر کیا گیا تھا جس کے گرنے کا خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا تھا۔ نئی تعمیر کے بعد وہ جسر الکوفہ کے نام سے مشہور ہوا۔[8] جہاں تک صوبے کے بیت المال میں تصرف کا تعلق ہے تو بلاذری اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ زیاد کو صرف بصرہ سے ساٹھ لاکھ درہم وصول ہوتے جس سے جنگجوؤں کو چھتیس لاکھ درہم ادا کیے جاتے۔ سولہ لاکھ ان کے بچوں میں تقسیم کر دئیے جاتے، دو لاکھ حکمران کے اخراجات کی مد میں چلے جاتے، چار لاکھ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دئیے جاتے اور دو لاکھ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے رکھ لیے جاتے۔ کوفہ سے چالیس لاکھ درہم وصول ہوتے جن میں سے تین چوتھائی معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام بھجوا دئیے جاتے، جب زیاد بن ابوسفیان کے بعد اس کا بیٹا عبیداللہ عراق کا والی بنا تو اس نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو چھ ہزار درہم بھیجے تو وہ کہنے لگے: یا اللہ! میرے بھتیجے سے راضی ہو جا۔[9]
Flag Counter