Maktaba Wahhabi

309 - 503
دوسرے رجسٹرڈ فوجیوں کی تعداد چھتیس ہزار تھی، اگر ایک فوجی کی سالانہ تنخواہ تین سو درہم بھی تسلیم کر لی جائے تو ان کی تنخواہ ایک کروڑ تیس لاکھ درہم سالانہ قرار پاتی ہے۔[1] منطقہ شام:… شامی دیوان میں رجسٹرڈ فوجیوں کی کل تعداد ساٹھ ہزار تھی۔ ہر فوجی کی سالانہ تنخواہ ایک ہزار درہم تھی، اسی طرح شام میں فوجیوں کو تنخواہ کی مد میں ساٹھ لاکھ درہم ادا کیے جاتے تھے۔[2] منطقہ عراق:… منطقہ عراق میں بصری دیوان میں رجسٹرڈ جنگجوؤں کی تعداد اسی ہزار تک جا پہنچی تھی۔[3]جن کی تنخواہوں پر زیاد کے عہد میں تین کروڑ ساٹھ لاکھ درہم خرچ آتا تھا، اگر ہم دیوان مصر پر قیاس کرتے ہوئے دس فیصد کے تناسب سے اعزازی عطیات وضع کر لیں تو باقی دو کروڑ درہم بچتے ہیں، اس بنا پر دیوان بصرہ میں ایک فوجی کی تنخواہ دو سو اٹھتر درہم بنتی ہے، منطقہ عراق کے دیگر علاقوں کو بھی اسی پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔[4] چونکہ دیوان جند فوجیوں کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کا ذمہ دار تھا، لہٰذا دولت امویہ اسے ترقی دینے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہی۔ مثلاً: ٭ مدینہ منورہ کے عطیات پر مامور معاویہ رضی اللہ عنہ کا مندوب ہر شخص کو اس کا عطیہ براہ راست ادا کرتا تھا جبکہ قبل ازیں کے نظام کے تحت انہیں عرفاء (رؤسا) کے ذریعے تقسیم کیا جاتا تھا اور وہ انہیں من پسندانہ انداز میں تقسیم کیا کرتے تھے۔[5] ٭ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد میں عراق پر ان کے والی زیاد بن ابیہ نے دیوان جند کے دفتری اخراجات میں کمی کرنے کے لیے عطیات کی تقسیم کے ذمہ دار عرفاء کی تعداد میں کمی کر دی تاکہ ہر قبیلہ کے لیے یہ ذمہ داری ایک ہی عریف (رئیس) ادا کرے۔[6] ب: حربی صنعتوں کے اخراجات:… اگرچہ حربی صنعتوں پر اٹھنے والے اخراجات کے حوالے سے رقوم کی متعین تعداد ہمارے سامنے موجود نہیں ہے مگر کچھ اشارات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ اخراجات مسلسل بڑھ رہے تھے، دولت امویہ بحری اسلحہ میں اضافہ کرنے اور اسے ترقی دینے میں خصوصی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی تھی، آغاز کار میں بحری اسلامی بیڑا دو سو کشتیوں پر مشتمل تھا۔[7] جن کی تعداد سلیمان بن عبدالملک کے زمانہ حکومت میں اٹھارہ سو تک جا پہنچی تھی۔[8]
Flag Counter