Maktaba Wahhabi

249 - 503
میں محض ایک سوال تھا کہ ان کے لیے علی رضی اللہ عنہ کو سب و شتم دینے سے کون سی چیز مانع ہے؟ پھر جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کا جواب سنا تو پرسکون ہو کر اپنا سر جھکا لیا اور سمجھ گئے کہ حق حق دار کو ملا ہے۔[1] ڈاکٹر الزحیلی اپنی کتاب ’’الصحب و الآل‘‘ میں رقمطراز ہیں: اس سے جو کچھ میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے یہ بات خوش طبعی کے انداز میں کی تھی جس سے مقصود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعض فضائل سے آگاہی حاصل کرنا تھا۔ اس لیے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ بڑے ذہین و فطین شخص تھے آپ لوگوں سے ان کے اندر کی باتیں معلوم کرنے کو پسند کرتے تھے، جب انہوں نے سعد رضی اللہ عنہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کا موقف معلوم کرنا چاہا تو ان سے اس انداز میں سوال کرنا مناسب سمجھا۔ ان کا یہ سوال ان کے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس سوال جیسا ہے کہ کیا آپ علی رضی اللہ عنہ کی ملت پر ہیں؟ اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا: میں نہ علی رضی اللہ عنہ کی ملت پر ہوں اور نہ عثمان رضی اللہ عنہ کی ملت پر۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملت پر ہوں۔[2] ظاہر ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ سوال خوش طبعی کے انداز میں تھا، اسی طرح حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ان کا یہ قول بھی خوش طبعی کی قبیل سے تھا۔ رہا روافض کا یہ دعویٰ کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ وہ علی رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کیا کریں تو ان سے اس جیسی بات کا صدور ہرگز نہیں ہو سکتا۔[3] اس کے مانع کئی امور ہیں: ۱۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نہ تو خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کرتے تھے اور نہ انہوں نے اس کا کسی اور کو حکم دیا، بلکہ وہ ان کی تعظیم کیا کرتے اور ان کی فضیلت اور سابق الاسلام ہونے کا اعتراف کیا کرتے تھے جس طرح کہ ان کے اقوال سے ثابت ہوتا ہے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابو مسلم خولانی اور اس کے ساتھ کچھ اور لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے پوچھا: کیا آپ علی رضی اللہ عنہ سے تنازع کرتے ہیں یا آپ ان جیسے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! مجھے بخوبی علم ہے کہ علی رضی اللہ عنہ مجھ سے بہت بہتر اور افضل ہیں اور مجھ سے زیادہ حکومت کے حق دار ہیں۔[4] مغیرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ملی تو وہ رونے لگے، ان کی بیوی کہنے لگی: آپ انہیں رو رہے ہیں جن سے قتال کرتے رہے؟ انہوں نے جواب دیا: تو نہیں جانتی کہ لوگ کس قدر فضل و شرف، علم اور فقہ سے محروم ہو گئے۔[5] کیا عقل و دین کے حوالے سے اس امر کا کوئی جواز پیدا ہو سکتا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ علی رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کر سکتے ہیں یا انہیں سب و شتم کرنے کا کسی دوسرے کو حکم دے سکتے ہیں جبکہ وہ علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس قسم کا اعتقاد بھی رکھتے ہوں۔[6]
Flag Counter