Maktaba Wahhabi

248 - 503
تعریف تھی۔ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خیار تابعین علیہما السلام نے ان کی تعریف و توصیف اور ان کے لیے دین، علم، عدل، حلم اور تمام خصائل خیر کی شہادت دی۔[1] یہ سب کچھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں ثابت ہے۔ اس قسم کی سیرت و کردار کے حامل شخص کے لیے ناممکن و محال ہے کہ وہ لوگوں کو منبروں پر کھڑے ہو کر علی رضی اللہ عنہ کو لعن طعن کرنے پر اکسائے جب کہ وہ عز و فضل میں اپنی مثال آپ ہو۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی سیرت، ان کے حلم و حوصلہ، عفو و درگزر اور حسن سیاست سے آگاہ شخص پر یہ بات عیاں ہے کہ اس قسم کی باتیں ان پر محض کذب و افتراء ہیں، معاویہ رضی اللہ عنہ کا حلم ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ نسلوں کے لیے اسوہ و قدوہ ہے۔ صحیح مسلم میں عامر بن سعد بن ابی وقاص اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تجھے ابوتراب رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کرنے سے کس نے روکا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمائی تھیں میں انہیں سب و شتم نہیں کروں گا۔ اگر مجھے ان میں سے ایک بھی مل جائے تو یہ مجھے سرخ رنگ کے اونٹوں سے بھی زیادہ پسند ہو گی۔[2] روافض کا اس روایت سے اپنے کذب و افتراء کے لیے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔ یہ ان کے زعم باطل پر دلالت نہیں کرتی۔ امام نووی فرماتے ہیں: معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس قول میں اس امر کی تصریح نہیں ہے کہ انہوں نے سعد کو علی رضی اللہ عنہ کو گالیاں دینے کا حکم دیا تھا۔ انہوں نے سعد سے صرف اس سبب کے بارے میں پوچھا تھا جو ان کے لیے علی رضی اللہ عنہ کو سب و شتم کرنے سے مانع تھا، گویا کہ وہ ان سے پوچھ رہے تھے کہ تم یہ کام ورع و پرہیز گاری کی وجہ سے نہیں کرتے، کسی خوف کی وجہ سے نہیں کرتے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے؟ اگر تو انہیں سب و شتم نہ دینے کی وجہ تورّع یا ان کا احترام ہے تو پھر تمہارا یہ رویہ بہت خوب ہے اور شاید سعد رضی اللہ عنہ کسی ایسی جماعت میں موجود ہوں جو انہیں سب و شتم کا نشانہ بناتی ہو مگر وہ ان کے ساتھ یہ کام نہ کرتے ہوں اور انہیں اس سے روک بھی نہ سکتے ہوں۔ اس کی ایک دوسری تاویل بھی کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ اس کا معنی یہ کیا جائے: تمہیں اس چیز سے کس نے روکا کہ تم علی رضی اللہ عنہ کی رائے اور اجتہاد کو غلط بتاؤ اور لوگوں کے سامنے ہماری رائے اور اجتہاد کے حسن کو واضح کرو۔[3] ایک دفعہ جب ضرار ہمدانی نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف کی جسے سن کر معاویہ رضی اللہ عنہ رونے لگے اور ضرار کی باتوں کی تصدیق کی تو ابوالعباس قرطبی نے اس کی تعلیق میں لکھا: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے مقام و مرتبہ سے بخوبی آگاہ تھے۔ جب صورت حال یہ ہے تو پھر ان کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ کو صراحتاً سبّ و شتم کرنے کے حوالے سے ان کے بارے میں جو کچھ مروی ہے اس کا زیادہ تر حصہ جھوٹ اور غیر صحیح ہے۔ اس میں سے سب سے زیادہ صحیح ان کا سعد بن ابی وقاص سے ان کا مذکورہ بالا ارشاد ہے۔ مگر وہ سب و شتم کے لیے صریح نہیں ہے۔ وہ اس بارے
Flag Counter