Maktaba Wahhabi

229 - 503
یہ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں مقیم تھے، لہٰذا جو علاقے اس سے مغرب کی طرف واقع تھے وہ آپ سے مغرب کی طرف تھے اور جو مشرق کی طرف واقع تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرق کی طرف تھے۔[1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر سے مطلع فرمایا کہ ان کی امت سے حق پر قائم طائفہ منصورہ مغرب میں ہو گی۔ مغرب سے مراد شام اور اس کے مغربی علاقہ جات ہیں۔ اہل مدینہ، اہل شام کو اہل مغرب کہا کرتے تھے۔ امام اوزاعی رحمہ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اہل مغرب کے امام ہیں۔[2] پھر جب نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے حق کے ساتھ قائم جماعت کو نہ تو ان کے مخالفین کی مخالفت کوئی نقصان پہنچا سکے گی اور نہ انہیں بے یار و مددگار چھوڑنے والوں کی بے مددگاری۔ تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کے معارض نہیں ہے: ’’عمار کو باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘[3] اور نہ یہ خوارج ہی کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ہی متصادم ہے کہ ’’انہیں وہ جماعت قتل کرے گی جو دو جماعتوں میں سے حق سے زیادہ قریب ہو گی۔‘‘[4] ان نصوص میں تطبیق دینا ضروری ہے، مگر اس کی صورت کیا ہو گی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد: اہل مغرب ہمیشہ غالب رہیں گے۔‘‘[5] اور اس جیسی دیگر نصوص جو اہل شام کے ظہور و انتصار پر دلالت کرتی ہیں، تو یہ امر واقع ہے، اس لیے کہ وہ ہمیشہ غالب رہے اور ان کی مدد کی جاتی رہی۔[6] رہا آپ کا یہ ارشاد کہ: ’’میری امت سے ہمیشہ ایک جماعت اللہ کے حکم سے قائم رہے گی۔‘‘[7] تو یہ اس امر کا متقاضی نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی باغی نہیں ہو گا اور ان کے غیر ان سے زیادہ حق کے قریب نہیں ہوں گے۔ بلکہ ان میں دونوں طرح کے لوگ ہوں گے۔[8]جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ: ’’انہیں وہ جماعت قتل کرے گی جو دو جماعتوں میں سے حق کے زیادہ قریب ہو گی۔‘‘ تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی اس وقت دوسری جماعت کے مقابلہ میں حق کے زیادہ قریب تھے، اگر کوئی شخص یا جماعت بعض احوال میں مرجوح ہو تو یہ اس کے قائم بامر اللہ ہونے سے مانع نہیں ہے اور نہ اس بات سے مانع ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزار ہو۔ اس لیے کہ کبھی ایک فعل اطاعت ہوتا ہے جبکہ دوسرا فعل اس سے زیادہ اطاعت پر مبنی ہوتا ہے۔ اس طرح ان میں سے بعض کا بعض اوقات میں باغی ہونا اور پھر اس کی بغاوت کو معاف کر دیا جانا بھی اس چیز سے مانع نہیں ہے جس کی نصوص شہادت دے رہی ہیں اور یہ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جملہ اہل شام کی عظمت کی خبر دے رہے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ سب کے سب عمومی احوال میں راجح تھے۔[9] حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی خلافت کے دوران اہل شام کو اہل عراق پر ترجیح دیتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ شام میں تو کئی دفعہ تشریف لے گئے مگر عراق جانے سے ہمیشہ انکار کرتے رہے، اس کے لیے جب
Flag Counter