Maktaba Wahhabi

222 - 503
تک دینی حقائق کا تعلق ہے تو اموی دور حکومت کا آغاز ۴۰ھ میں ہوا اور ۱۳۲ھ تک جاری رہا اور یہ طویل دور امت کے تین بہترین ادوار کو شامل ہے، یعنی صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کے ادوار کو۔[1] یہ وہ ادوار ہیں جن کی فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث سے ثابت ہے، مثلاً ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی یہ مرفوع حدیث: ’’زمانوں میں سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے، پھر وہ لوگ جو ُان کے بعد آئیں گے اور پھر وہ جو اُن کے بعد آئیں گے۔‘‘[2] عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث میں ہے: ’’تم میں سے بہترین میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد آئیں گے اور پھر ان کا جو، ان کے بعد آئیں گے۔‘‘[3] ابو سعید خدری سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ایک زمانہ آئے گا کہ کچھ لوگ جہاد کریں گے تو پوچھا جائے گا: کیا تم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی بھی موجود ہے؟ اس کا جواب اثبات میں دیا جائے گا تو انہیں فتح سے نوازا جائے گا، پھر ایک اور زمانہ آئے گا ان سے پوچھا جائے گا: کیا تم میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جس نے اصحاب نبی میں سے کسی کی صحبت اختیار کی ہو؟ اس کا جواب بھی اثبات میں دیا جائے گا تو انہیں فتح سے ہمکنار کر دیا جائے گا۔‘‘[4] مرفوع احادیث میں مذکور تین قرون سے مراد تین زمانے ہیں، یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا زمانہ، تابعین کا زمانہ اور تبع تابعین کا زمانہ۔[5] اس کی یہی تفسیر راجح ہے۔ جن احادیث صحیحہ سے اموی دور حکومت کی فضیلت و منقبت ثابت ہوتی ہے ان میں صحیح بخاری میں خالد بن مہران سے مروی یہ حدیث بھی ہے کہ عمر بن اسود نے اس سے بیان کیا کہ وہ حمص میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت ان کی بیوی ام حرام بھی ان کے ساتھ تھی، عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ام حرام نے ہم سے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’میری امت کا پہلا لشکر جو سمندر میں جہاد کرے گا اس نے جنت کو واجب کر لیا۔‘‘ (یعنی انہوں نے وہ کام کیا جس کی وجہ سے ان کے لیے جنت واجب ہو گئی۔) ام حرام کہتی ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان میں میں بھی شامل ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان میں تو بھی شامل ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ’’میری امت سے پہلا لشکر جو قیصر کے شہر میں جہاد کرے گا اس کی مغفرت فرما دی گئی ہے۔‘‘ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! ان لوگوں میں میں بھی شامل ہوں گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں‘‘۔[6] قیصر کے شہر سے مراد قسطنطنیہ ہے، جو کہ بیزنطی حکومت کا دار الحکومت تھا۔[7] شارحین حدیث فرماتے ہیں: اس حدیث سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی منقبت ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے کہ سب
Flag Counter