Maktaba Wahhabi

221 - 503
معاویہ رضی اللہ عنہ کا شمار خلفائے راشدین میں ہی ہوتا ہے۔ مؤرخین نے صرف دو باتوں کی وجہ سے معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان سے مؤخر رکھا ہے: ۱۔ ان کی خلافت ان کے زمانہ میں سر اٹھانے والی عصبیت ، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کر دیا ہے ، کی وجہ سے دوسری قوتوں پر غلبہ حاصل کرنے والی خلافت تھی، جبکہ قبل ازیں وہ اختیار اور اجتماع سے عبارت تھی۔ مؤرخین نے اس حوالے سے ان دونوں حالتوں میں فرق کو ملحوظ رکھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ مغالبہ اور عصبیت کے خلفاء میں سے پہلے خلیفہ تھے جنہیں اہل ہواء لوگ بادشاہ کے نام سے تعبیر کرتے اور انہیں ایک دوسرے سے تشبیہ دیتے ہیں۔ مگر حاشا للہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے بعد آنے والے خلفاء کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی، وہ خلفائے راشدین میں سے ہیں، دین اور فضل و شرف میں ان جیسے مروانی خلفاء نیز ان کے ہم مرتبہ عباسی خلفاء کا شمار بھی خلفاء راشدین میں ہوتا ہے۔ یہ کہنا ناروا ہے کہ بادشاہت کا رتبہ خلافت کے رتبہ سے کم تر ہے، لہٰذا بادشاہ خلیفہ نہیں ہو سکتا۔ یہ بات آپ کے علم میں رہنی چاہیے کہ جو بادشاہت خلافت کے مخالف بلکہ اس کی ضد ہے وہ جابرانہ بادشاہت ہے جسے کسرویت سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس وقت ناپسند کیا تھا جب انہوں نے اس پر اس کے بعض مظاہر کا مشاہدہ کیا تھا، رہی وہ بادشاہت جو عصبیت اور قوت و شوکت کے ساتھ غلبہ و قہر سے عبارت ہے تو وہ نہ خلافت کے منافی ہے اور نہ نبوت کے۔ سلیمان علیہ السلام اور ان کے والد حضرت داوٗد علیہما السلام اللہ کے نبی تھے اور بادشاہ بھی، اور وہ دونوں دینی اور دنیوی ہر دو حوالوں سے استقامت کی انتہاء پر فائز تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان و شوکت بکثرت دنیا کے حصول کے لیے نہیں تھی بلکہ انہیں (قومی)عصبیت نے اپنی تمام تر خصوصیات کے ساتھ یہاں لا کھڑا کیا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب مسلمان ساری حکومت پر قابض ہو گئے اور وہ ان کے خلیفہ قرار پائے تو انہوں نے بھی اپنی قوم کو اسی بات کی طرف بلایا جس کی طرف بادشاہ اپنی اپنی قوموں کو بلایا کرتے ہیں۔ ۲۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف میں یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور بعدازاں کے علمائے امت کے بعض اقوال ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے پہلے بادشاہ ہیں اور ان کا شمار ان بہترین شاہانِ اسلام میں ہوتا ہے جن کا عدل ان کے ظلم پر غالب تھا۔ جبکہ وہ بشری کمزوریوں سے بری نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ ان سے درگزر فرمائیں گے جیسا کہ انہوں نے خود کہا وہ اس دین کے پیروکار تھے جس میں اللہ تعالیٰ اعمال کو قبول فرماتا، حسنات کا بدلہ دیتا اور گناہوں کی سزا دیتا ہے الا یہ کہ وہ جسے چاہے معاف فرما دے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی حکومت کو خاص طورسے اور بنوامیہ کی حکومت کو عام طور سے بعض مؤرخین کے زہریلے تیروں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بعض لوگوں کے خیال میں تو وہ سلطنت مدینہ تھی جبکہ بعض دوسروں کے نزدیک وہ اسلامی نہیں بلکہ عربی دولت تھی، بلکہ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ لا دینی حکومت تھی یا اخلاق کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ ایسا کذب و افتراء ہے جس کی دینی حقائق بھی تکذیب کرتے ہیں اور تاریخی شواہد بھی۔ جہاں
Flag Counter