Maktaba Wahhabi

20 - 503
کھول دیے ہوں۔ ایسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو ماننا مستقبل میں ظاہر ہونے والے واقعہ کو حال میں دیکھنا تھا، ایک چھپی ہوئی حقیقت کو اس کے ثابت شدہ بننے سے پہلے پالینا تھا اور نبوت کے لیے اپنی عظمت کو کھو کر دوسرے کی عظمت میں گم ہونا پڑتا تھا، یہ اپنے مقابلہ میں دوسری شخصیت کا اعتراف کرنا تھااور وہ بھی ایسی شخصیت کا جس کی حقیقت ابھی مسلم نہ ہوئی ہو، کوئی رسول کی نبوت آج قبول کرتا ہے۔ تو یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت تاریخ کی ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے۔ اس شخص کے اعمال کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ایمان سے کوئی نسبت ہی نہیں کیونکہ آج کا مومن تاریخ کے اختتام پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کو تسلیم کر رہا ہے جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے تاریخ کے آغاز پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو مانتا تھا۔ اس بنا پر اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ سب کے سب عادل ہیں ، جب صحابہ کرام سارے کے سارے عادل ہیں تو پھر وہ ہماری ہرقسم کی تنقید سے بھی بالا تر ہیں۔ ہماری ہر حالت سے اونچے ہیں ، ہمارا فرض ہے کہ ان کی ذات کو سامنے رکھ کر اپنے ایمانوں کو جانچیں اور پرکھیں اور اگر ہمارا ایمان ان کے ایمان کے مطابق ہو جائے تو ہمارا ایمان درست ہے:﴿فَاِنْ آمَنُوْا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا﴾ ورنہ غلط ہے۔ اگر ہمارے اعمال ان کے اعمال پر منطبق ہو جائیں تو درست ورنہ ہمارے اعمال میں کھوٹ ہے گویا وہ ہمارے ایمان اور اعمال کے پرکھنے کی کسوٹی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دین اسلام یعنی (قرآن و حدیث) کے اوّلین راوی ہیں۔ اگر معاذ اللہ ان میں کوئی خرابی ہے تو ہمارے دین کی سلامتی کی کوئی صورت نہیں۔ اگر بنیاد میں خرابی پڑ جائے تو پھر ہم صحیح ایمان نہیں لا سکتے، ہمارا دین تو ان کا مرہونِ منت ہے۔ درحقیقت وہ ہمارے ایمان کو پہنچاننے کے لیے کسوٹی ہیں ، ہمارے علم و عمل کے صحیح ہونے کے لیے ایک معیار ہیں۔ اس لیے کہ علم کی روایت انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے اور عمل کی روایات بھی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نجومِ ہدایت تھے ان کے علم و عمل کی روشنی کے بغیر ہدایت کی منازل حاصل نہیں ہو سکتیں اور اللہ کے ہاں وہ ایمان ہی قبول نہیں جس پر ان کی چھاپ نہ ہو۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی صحابی تھے بلکہ صحابی بھی معمولی نہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ کچھ نام نہاد مسلمانوں نے صحابہ کرام کے بارے میں وہ وہ ہرزہ سرائیاں کی ہیں ، اللہ کی تمام مخلوق سمیت زمین و آسمان بھی کانپ اٹھے ہیں سوائے حضرت انسان کے۔ اس قدر فضیلت والی ہستیوں کی اس طرح تحقیر کرنا دین اسلام کی فہم سے بالا تہی ہے۔ صحابہ کرام تو روشنی کے مینار تھے، پھر کیا وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار کو داغدار کیا گیا۔ بات بالکل واضح ہے ، اسلام کے دشمن خوب جانتے تھے کہ یہ جماعت یعنی صحابہ کرام مسلمانوں کے ہیرو ہیں اگر ان کی سیرتوں کو پڑھ کر کوئی قوم تیار ہو گئی تو پھر نبوی انقلاب آجائے گاپھر تعمیر انسانیت کے درخت کوئی اُکھاڑ نہیں سکے گا، لہٰذا انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذات سے اپنی دشمنی کا آغاز کیا۔ مرد مومن کی تلوار کے آگے یہ یہود و نصاریٰ اور منافقین ٹھہر نہ
Flag Counter