Maktaba Wahhabi

167 - 503
۹۔ صحیح بخاری میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ میں حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ لوگوں کی صورت حال تمہارے سامنے ہی ہے۔ مجھے تو کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ تم ان کے پاس جاؤ وہ لوگ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ تمہاری عدم موجودگی میں تفرقہ بازی کا شکار ہو جائیں گے۔ میں ان کے اصرار پر وہاں چلا گیا۔ جب لوگ منتشر ہو گئے تو معاویہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: اس بارے میں جو کوئی بات کرنا چاہتا ہے وہ ہمارے سامنے آئے۔ ہم اس امر کے اس سے بھی زیادہ حق دار ہیں اور اس کے والد سے بھی۔ یہ سن کر حبیب بن مسلمہ کہنے لگے: آپ نے انہیں کوئی جواب کیوں نہ دیا؟ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے: میں نے یہ کہنا تو چاہا تھا کہ تم سے زیادہ اس کا حق دار وہ ہے جس نے اسلام کے لیے تم سے اور تمہارے باپ سے جنگ کی، مگر میں ایسی بات کہنے سے ڈر گیا جس سے جمعیت میں تفرقہ پیدا ہو اور خون بہایا جائے۔ پھر میں نے ان نعمتوں کو یاد کیا جو اللہ نے جنتوں میں تیار کر رکھی ہیں۔ اس پر حبیب نے کہا: تم محفوظ بھی رہے اور معصوم بھی۔[1] اس حدیث سے معاویہ رضی اللہ عنہ کا خلافت کے لیے بیعت لینا سمجھا تو جا سکتا ہے مگر اس میں اس کی تصریح نہیں ہے۔ بعض علماء فرماتے ہیں: یہ بات اس اجتماع سے متعلق ہے جس میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی تھی۔ ابن جوزی فرماتے ہیں: یہ ان دنوں کی بات ہے جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے یزید کو اپنا ولی عہد بنانے کا ارادہ کیا، جبکہ ابن حجر کی رائے میں یہ واقعہ تحکیم کے دنوں کا ہے۔[2] دلالت نص پہلے دو اقوال پر زیادہ قوی ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول: ’’میں ایسی بات کرنے سے ڈرا جس سے جمعیت میں تفرقہ بازی ہو۔‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں کا معاویہ رضی اللہ عنہ پر اتفاق تھا جبکہ تحکیم کے ایام فرقہ بندی اور اختلاف کے ایام تھے نہ کہ جمعیت اور میل ملاپ کے۔[3] ۱۰۔ قرار داد تحکیم کی حقیقت:… اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ میں اختلاف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کے بارے میں تھا، معاویہ رضی اللہ عنہ نہ تو خلافت کے مدعی تھے اور نہ وہ خلافت کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کے حق سے منکر تھے، وہ ان کی بیعت اور شام میں ان کے اوامر و احکام کی تنفیذ سے اس لیے رکے ہوئے تھے کہ قانونی اعتبار سے نہیں بلکہ زمینی حقائق کی رو سے ان کا شام پر تسلط تھا، وہ تقریباً بیس برس تک شام کے والی رہے اور اس مدت امارت کے دوران لوگ ان کے اطاعت گزار رہے اور وہ اس سے مستفید بھی ہو رہے تھے۔[4] ابن دحیہ کلبی اپنی کتاب ’’اعلام النصر المبین فی المفاضلۃ بین اہل الصفین‘‘ میں رقم طراز ہیں: ابوبکر محمد بن طیب اشعری باقلانی ’’مناقب الائمۃ‘‘ میں فرماتے ہیں: علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کی معزولی پر
Flag Counter