Maktaba Wahhabi

149 - 503
باغی گروہ قتل کرے گا- سرکشی کرنے والے عناصر پر یہ بات واضح ہو گئی کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور ان کے ساتھ مل کر قتال کرنا واجب ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اسی جنگ میں شریک نہ ہونے پر بھی اس لیے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ انہوں نے واجب کا ترک کیا، اور وہ واجب تھا ان لوگوں کے خلاف امام حق علی رضی اللہ عنہ کی نصرت و معاونت کرنا۔ جنہوں نے بدون حق ان کے خلاف خروج کیا۔ جب کہ فقہاء کا یونہی فتویٰ ہے۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس قول کی تردید کہ: ’’اسے اس نے قتل کیا جو اسے لے کر آیا‘‘:[2] زیادہ تر صحابہ و تابعین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’’تجھے باغی گروہ قتل کرے گا‘‘[3] سے یہی سمجھا کہ اس سے مقصود معاویہ رضی اللہ عنہ کا لشکر ہے۔ اگرچہ وہ اپنے اجتہاد میں معذور تھے، ان کا قصد و ارادہ حق کا حصول تھا مگر وہ اسے حاصل نہ کر سکے۔ اور جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے علی رضی اللہ عنہ کی جماعت حق کے زیادہ قریب تھی۔[4] اگرچہ ائمہ کرام کو معاویہ رضی اللہ عنہ کی یہ تاویل پسند نہیں آئی مگر انہوں نے انہیں ان کے اجتہاد میں معذور سمجھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ’’وہ انہیں جنت کی طرف بلا رہا ہو گا اور وہ اسے جہنم کی طرف بلا رہے ہوں گے‘‘[5] کی شرح میں فرماتے ہیں: اگر یہ کہا جائے کہ عمار رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں قتل ہوئے اور وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، اور جن لوگوں نے انہیں قتل کیا وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور ان کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت بھی تھی، تو ان کے لیے جہنم کی دعوت دینا کس طرح جائز قرار پائے گا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں اس امر کا یقین تھا کہ وہ جنت کے داعی ہیں اور اس کے لیے انہوں نے اجتہاد کیا، لہٰذا وہ اپنے یقین پر عمل کرنے کی وجہ سے قابل ملامت نہیں ٹھہریں گے، جنت کی طرف بلانے کا مطلب حصول جنت کے سبب کی طرف بلانا ہے اور وہ امام کی اطاعت سے عبارت ہے، اسی طرح وہ اس تاویل کے لیے بھی معذور ہوں گے جن کا ان کے سامنے ظہور ہوا۔[6] امام قرطبی فرماتے ہیں: امام ابو المعالی کتاب الارشاد میں رقمطراز ہیں: علی رضی اللہ عنہ امام برحق تھے اور ان کے ساتھ جنگ کرنے والے بغاوت کرنے والے۔ ان کے ساتھ حسن ظن اس بات کا متقاضی ہے کہ ان کی غلطی کے باوجود ان کے بارے میں یہ یقین رکھا جائے کہ وہ خیر کے متلاشی تھے۔[7] مزید فرماتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بات کا جواب یہ دیا تھا کہ اگر ہم نے عمار رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ہے تو پھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کیا تھا اس لیے کہ احد کے میدان جنگ میں انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے یہ حقیقی جواب نہیں بلکہ الزامی جواب تھا اور یہ ایسی حجت تھی جس پر کوئی اعتراض وارد نہیں ہوتا۔ یہ امام ابو الخطاب ابن دحیہ کا قول ہے۔[8] مفسر ابن کثیر فرماتے ہیں: معاویہ کا یہ قول کہ ’’عمار کا قاتل وہ ہے جو انہیں ہماری
Flag Counter