صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’ جمعہ کے دن ایک اعرابی داخل ہوا اور دوران خطبہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا، اے اللہ کے رسول! اموال ہلاک ہوگئے،بال بچے بھوکے رہ گئے، اس لیے آپ ہمارے لیے دعا کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو دعا کے لیے اٹھایا اور اس وقت آسمان میں بادل کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو ابھی نہیں رکھا تھا کہ بادل پہاڑوں کی مانند امڈ آئے،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منبر پر سے نہیں اترے تھے کہ میں نے دیکھا کہ پانی کے قطرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھی مبارک سے ٹپک رہے تھے، پھر اگلے جمعہ کو وہی اعرابی یا کوئی دوسرا شخص اٹھا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! مکانات گر گئے، اور اموال غرق ہوگئے، لہٰذا آپ ہمارے لیے دعا کریں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو اٹھایا اور فرمایا، اے اللہ! یہ بارش ہمارے آس پاس ہو اور ہمارے اوپر نہ ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس طرف اشارہ کرتے تھے ادھر سے بارش چھٹ جاتی تھی۔‘‘
آج تک یہ سلسلہ ومشاہدہ جاری ہے کہ اس شخص کی دعا قبول ہوئی اور ہوجاتی ہے، جس نے صدق دل سے اللہ تعالیٰ سے فریاد کی ہو اور دعا کی قبولیت کی شرائط پوری کی ہوں۔
دوسری صورت:....انبیائے کرام کے معجزات، جنہیں لوگ مشاہدہ کرتے یا جن کے متعلق سنتے ہیں، ان کے بھیجنے والے یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود پر قطعی دلیل ہیں، کیونکہ معجزات ایسے خارق عادت امور ہوتے ہیں جو انسانی طاقت واختیار سے باہر ہوتے ہیں اور جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی تائید ومدد کے طور پر جاری فرمادیتا ہے، اس کی مثال موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ ہے، جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی لاٹھی دریا میں مارنے کے لیے کہا انہوں نے دریا میں لاٹھی ماری تو بارہ خشکی کے راستے نکل آئے اور پانی دونوں طرف پہاڑ کی طرح کھڑا ہو
|