رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ وقت نماز کی مثال غسل سے دیتے ہوئے فرماتے ہیں : اگر تم میں سے کسی کے گھر کے سامنے نہر بہہ رہی ہو اور وہ شخص روزانہ اس میں پانچ بار غسل کرے تو کیا اس کے بدن پر میل باقی رہے گا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: نہیں ! آپ نے فرمایا: یہی حال نماز کا ہے۔[1]
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس قدر صفائی پسند تھے کہ اسلام لانے کے بعد روزانہ پابندی سے غسل کرتے تھے۔[2] حضرت انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں غسل کے لیے حمام موجود تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے:
’’اللہ تعالیٰ حیا دار اور پردہ دار ہے اور پردے کو پسند کرتا ہے۔ لہٰذا جب کوئی غسل کرے تو پردے سے کرے۔‘‘ البتہ باپردہ حمام میں اکیلا شخص کپڑے کے بغیر غسل کر سکتا ہے۔ اس کے آداب واصول، جمعہ اور عیدین کا غسل پانچ وقت نمازوں کے لیے نیا وضو عمر کے اگلے مراحل سے تعلق رکھتے ہیں اور عام غسل پر مستزاد ہیں۔ لیکن ان تمام باتوں سے شریعت کا مقصود سمجھا جا سکتا ہے کہ اسلام صفائی وستھرائی کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔ حالانکہ بعض دیگر مذاہب میں گندگی اور میل کچیل کو روحانی ارتقاء کا باعث سمجھا جاتا ہے۔‘‘[3]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کوئی عورت کسی دوسری عورت کا ستر نہ دیکھے اور کوئی مرد کسی دوسرے مرد کا ستر نہ دیکھے۔‘‘[4]
اللہ تعالیٰ ہمیں بے پردگی سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے
|