الإِبْطِ)) [1]
’’فطرت کی چیزیں پانچ ہیں : ختنہ کرنا زیر ناف بالوں کا مونڈنا، مونچھ کاٹنا، ناخن تراشنا اور بغل کے بال اکھاڑنا۔‘‘
اس حدیث میں ختنہ کو ایک دینی شعار بتایا گیا ہے بلکہ ختنہ اسلام اور دیگر مذاہب میں امتیاز کا ذریعہ ہے۔ اس کے بے شمار فوائد بھی ہیں۔ مختون شخص کی ناگہانی موت کے بعد شناخت میں آسانی ہوتی ہے۔ ختنہ سے انسان آسانی کے ساتھ مکمل طہارت حاصل کرلیتا ہے جبکہ بغیر ختنہ کے پیشاب کے قطروں کا قلفہ میں روکے رہنے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ختنہ کے بعد کینسر جیسے موذی مرض کا ڈر نہیں رہ جاتا۔ تحقیقات سے ثابت ہوتا ہے کہ کینسر ان قوموں میں کہیں زیادہ ہے جن میں ختنہ کا رواج نہیں ہے۔ بچوں کو ختنہ جلد کرا لینے کی صورت میں بستر پر بچوں کے پیشاب کا امکان بھی کم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ جن بچوں کا ختنہ نہیں ہوتا ان کے قلفہ میں خارش کی وجہ سے بسا اوقات پیشاب خطا کر جاتا ہے۔ اگر کسی مجبوری کی وجہ سے بچپن میں ختنہ نہ ہو سکے تو بڑے ہونے کے بعد بھی ختنہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے جوانی میں اپنا ختنہ اپنے ہاتھ سے کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ قُلْ صَدَقَ اللَّهُ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ﴾ (آل عمران: ۹۵)
’’اے پیغمبر! کہہ دیجئے اللہ نے سچ فرمایا کہ تم ابراہیم کی راہ پر چلو جو ایک موحد تھے مشرک نہ تھے۔‘‘
﴿ وَمَنْ يَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ إِبْرَاهِيمَ إِلَّا مَنْ سَفِهَ نَفْسَهُ وَلَقَدِ اصْطَفَيْنَاهُ فِي الدُّنْيَا وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ () إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ (البقرۃ: ۱۳۰۔ ۱۳۱)
|