Maktaba Wahhabi

68 - 503
یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے تیار کیا تھا۔ جو اس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے شام کے ایک والی تھے۔ یہ شہر انتہائی محفوظ تھا اور اس کے باسی بھی بڑے دلیر تھے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عرصہ دراز تک اس کا محاصرہ کیے رکھا اور اس کے شہریوں سے بھی متعدد جھڑپیں ہوئیں۔ اگرچہ حالات بڑے کٹھن تھے مگر وہ اس سے مایوس نہ ہوئے۔ انہوں نے بھی اسے فتح کرنے کا پختہ ارادہ کر رکھا تھا۔ آپ نے اپنی سرتوڑ کوششیں جاری رکھیں یہاں تک اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح سے نواز دیا۔ شہر کو فتح کرنے کی مہم میں اس شہر کے باسیوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور ان کے تقریباً ایک لاکھ لوگ اس جنگ میں مارے گئے۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ نے فتح قیساریہ کی مبارک بادی کا پیغام اور اس کے نتیجہ میں حاصل ہونے والا مال غنیمت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ منورہ ارسال کیا۔[2] اس فاتحانہ معرکہ کے دوران معاویہ رضی اللہ عنہ نے توفیق ایزدی سے جس عزم صادق اور حسن قیادت کا مظاہرہ کیا اس سے انہیں سب لوگوں کا اعتماد حاصل ہوا۔ چنانچہ دمشق کے امیر اور ان کے بھائی یزید نے شام کے ساحلی علاقوں کو فتح کرنے کی مہم ان کے سپرد کر دی جس کے لیے انہوں نے اپنی بھرپور حربی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔[3] انہوں نے کوئی قلعہ دو دنوں میں فتح کیا اور کوئی چند دنوں میں۔ کبھی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور کبھی صرف تیراندازی ہی اس کی فتح کے لیے کافی ثابت ہوئی۔ وہ جس شہر کو بھی فتح کرتے اسے بعض مسلمانوں کے حوالے کر دیتے اور اگر کسی جگہ مزید دستوں کی ضرورت ہوتی تو اس کا بندوبست کرتے۔[4] ڈاکٹر عبدالرحمن شجاع کی رائے میں ملک شام کے شہر مسلمانوں کے یکے بعد دیگرے حملوں کے نتیجے میں سرنگوں ہوتے چلے گئے اس لیے کہ شکست و ریخت کے اس عمل نے رومیوں کو جس مقام پر لا کھڑا کیا تھا اس نے ان سے کسی جگہ جم کر لڑنے کی سوچ کو بھی سلب کر لیا تھا۔ ان کی اسی پست ہمتی کے نتیجہ میں بیروت، صیدا، نابلس، لد، حلب اور انطاکیہ ان کے ہاتھوں سے نکل گئے۔ شام کے شہروں میں سے قیساریہ وہ آخری شہر تھا جو معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں فتح ہوا اور یہ القدس کی فتح کے بعد کا واقعہ ہے۔[5] قیساریہ کے محاصرہ کے دوران مسلم سپاہ کے میمنہ (دائیں جانب کا دستہ) کی قیادت حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں تھی۔وہ ایک دفعہ کھڑے ہو کر لوگوں کو نصیحت کرنے لگے اسی دوران آپ نے انہیں جانوں کے نذرانے پیش کرنے اور گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کی تلقین فرمائی اور پھر دشمن پر بھرپور وار کر کے کئی رومیوں کو موت کی نیند سلا دیا مگر اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ آپ اپنی روانگی کی جگہ پر واپس گئے اور اپنے ساتھیوں کو جنگ کرنے کی ترغیب دلائی اور حملہ کے مقاصد کے حصول میں ناکامی پر اپنی شدید حیرت کا اظہار کیا۔ وہ اپنی سپاہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے: اے اہل اسلام! میں نقباء میں سے سب سے کم سن تھا پھر اللہ نے مجھے اتنی زندگی
Flag Counter