Maktaba Wahhabi

492 - 503
کہ اسے اہل شام کی بھرپور تائید حاصل ہو گی جو کہ اموی حکومت کے استحکام کا انتہائی طاقتور عامل تھے۔ انہوں نے اپنے آخری سفر حج کے دوران کبار ابنائے صحابہ رضی اللہ عنہم کی تائید حاصل کرنے کی کوششوں کے وقت بتایا تھا کہ یزید کے لیے جلدی بیعت لینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اختلاف امت سے خائف ہیں۔[1] جس کا ان کی موت کے بعد اسے سامنا ہو سکتا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ایسی نئی جنگ میں پھنس کر رہ جائے جس کی وسعت کا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسی بھیڑ کی طرح چھوڑنے سے ڈرتے تھے جس کا کوئی چرواہا نہ ہو۔[3] لہٰذا انہوں نے کسی ایسے شخص کے انتخاب کے لیے کام کرنا شروع کر دیا جو ان کے بعد منصب خلافت سنبھال سکے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے اولیٰ یہ تھا کہ وہ اسلامی معاشرہ کے معززین پر مشتمل ایک مجلس شوریٰ تشکیل دیتے اور ارکان شوریٰ منصب خلافت کے اہل کسی شخص کا انتخاب کرتے اور وہ خود اپنے بیٹے کی نامزدگی سے دُور رہتے، اس لیے کہ یزید کا انتخاب امت اسلامیہ کو قتل و قتال اور خون ریزی سے بچانے کی ضمانت نہیں دے سکتا تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد وہ سب کچھ ہو کر رہا جس کا خطرہ محسوس کیا جا رہا تھا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ بھی ہوا وہ یزید کی ذات کی وجہ سے ہوا، اور خلیفہ کے انتخاب میں شوریٰ کی جگہ نظام وراثت کو اپنانے کی وجہ سے ہوا۔ علیٰ کل حال معاویہ رضی اللہ عنہ نے اجتہاد کیا مگر وہ اس اجتہاد میں مصیب نہیں تھے۔ وہ اپنی صلاحیت اور بلند تر سیاسی برتری کے باعث اپنی زندگی میں اپنے بعد خلافت کے معاملہ میں قریش سے کسی ایسے شخص کو منتخب کر کے امت اسلامیہ کو متحد رکھ سکتے تھے جس کی حسن سیرت و کردار کی لوگ ان کے بیٹے یزید سے زیادہ گواہی دیتے اور شام، عراق اور بلاد حجاز وغیرہ میں موجود اسلامی معاشرہ کے سرکردہ لوگ اس پر اتفاق کر لیتے۔ ۲۔ قبائلی تعصب کی قوت:… معاویہ رضی اللہ عنہ اہل شام کی نصرت و معاونت سے ہی منصب خلافت پر فائز ہوئے تھے۔ یہ لوگ معاویہ رضی اللہ عنہ کے بڑے اطاعت گزار اور بنو امیہ کے ساتھ محبت کرنے والے تھے۔ اس اطاعت گزاری اور محبت کی ایک دلیل یہ ہے کہ جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے یزید کی خلافت کی تجویز پیش کی تو انہوں نے بالاتفاق موافقت کی اور ان میں سے کسی ایک شخص نے بھی اختلاف نہ کیا اور انہوں نے ولی عہد کے طور پر یزید سے بیعت کر لی۔[4] بلاد شام میں بنو امیہ کے لیے عصبیت کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مروان بن حکم اہل شام کی مدد سے ہی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے عمال پر غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ بعد ازاں اس کا بیٹا عبدالملک بن مروان بھی اہل شام ہی کی مدد سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو گرفت میں لانے اور بالآخر ۷۳ ہجری میں انہیں قتل کرنے میں کامیاب ہوا، اہل شام نے نہ صرف یہ کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی اطاعت قبول نہ کی بلکہ اہل عراق نے ان کے بھائی
Flag Counter