Maktaba Wahhabi

451 - 503
سے ہی یہ اہم ذمہ داری ادا کرانے پر اصرار کیا جس کی کما حقہ ادائیگی سے دوسرے لوگ قاصر رہیں گے۔ اس نے اس مقصد کے حصول کے لیے اس کے ساتھ اس کے عم زاد اور ایک دوسرے ذمہ دار آدمی کو بھی بھیجا مگر مہلب نے سلم پر یہ شرط لگائی کہ وہ کسی کو بھی اس اہم ترین ذمہ داری سے آگاہ نہیں کرے گا، پھر وہ رات کے وقت اپنی جاسوس جماعت کے ساتھ اس مشن پر روانہ ہو گئے اور کسی پوشیدہ مقام پر چھپ کر بیٹھ گئے اور پھر دشمن کی فورسز کے بارے میں بھرپور آگاہی حاصل کر لی جبکہ وہ مخفی جگہ دشمن کی نظروں سے بالکل اوجھل رہی، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ اس رات مہلب کی قوم اور دیگر مسلمانوں کو صبح کی نماز میں مہلب نظر نہ آیا مگر اس جیسے آدمی کا غائب رہنا کسی پر مخفی نہیں رہ سکتا تھا، اس کا مقام و مرتبہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں تھا اور اسے بڑی قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا، وہ لوگ سلم سے مہلب کے بارے میں بڑے اصرار کے ساتھ دریافت کرتے رہے جس کی وجہ سے وہ اس کے معاملے کو مخفی نہ رکھ سکا اور انہیں اصل صورت حال سے آگاہ کر دیا اور پھر یہ خبر بڑی تیزی کے ساتھ سارے لشکر میں پھیل گئی، اس پر کچھ مسلمان جلدی جلدی سواریوں پر سوار ہوئے اور مہلب کی خفیہ جگہ کی طرف چل پڑے اور آخر کار انہوں نے وہ جگہ ڈھونڈھ نکالی۔ جب مہلب نے انہیں بغیر کسی نظم اور ترتیب کے اپنی طرف آتے دیکھا تو انہیں ان کی اس غیر ذمہ دارانہ حرکت پر بڑا سخت سست کہا، اس لیے کہ انہوں نے بغیر کسی جواز کے دشمن کو اس کی جاسوس جماعت کے مقام کو ظاہر کر دیا اور اس طرح اسے انتہائی خطرناک صورت حال سے دوچار کر دیا۔ ان کی تلاش میں آنے والے مجاہد شہسوار تقریباً نو سو کی تعداد میں تھے۔ مہلب نے ان سے کہا: اللہ کی قسم! تم اپنے اس فعل پر ضرور نادم ہو گے اور پھر وہی کچھ ہوا جس کی مہلب توقع کر رہا تھا، ابھی وہ مسلمانوں کی صفوں کو منظم بھی نہیں کر پایا تھا کہ ترکوں نے ان پر حملہ آور ہو کر چار سو مجاہدین کو موت کے گھاٹ اتار دیا جبکہ دوسروں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی۔ مہلب اور اس کے ساتھ رہ جانے والی نفری کو چند لوگوں نے گھیر لیا مگر وہ اپنی جگہ پر ثابت قدم رہے، اس جیسے لوگوں کے لیے راہِ فرار اختیار کرنے سے موت اختیار کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مہلب نے بلند آواز سے چلاتے ہوئے مسلمانوں سے مدد کی اپیل کی تو اس کی آواز قریب ہی واقع مسلمانوں کے کیمپ میں سنی گئی، اس کی قوم سے ازد قبیلہ کے لوگ فوراً اس کی مدد کے لیے وہاں پہنچ گئے اور ترکوں کو اتنی دیر تک مشغول رکھا جتنی دیر میں مسلمانوں کی قیادت ان کی مدد کے لیے پہنچ نہ گئی، پھر فریقین میں گھمسان کا رن پڑا اور مسلمان سپاہ نے ترکوں کو بڑی بری طرح شکست سے دوچار کر دیا اور وہ میدان جنگ میں اپنے اموال اور ساز و سامان چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جسے مسلمانوں نے مال غنیمت کے طور پر سمیٹ لیا اور جس میں سے ہر شہسوار کے حصے میں دو ہزار اور چار چار سو درہم آئے۔ دوسری روایت کی رو سے ہر مجاہد کو دس دس ہزار درہم میسر آئے۔ مسلمانوں نے ترکوں کو شکست فاش دے دی، اس جنگ میں صغد بادشاہ (بندون) یا (بیدون) بھی کام آیا، اور ملکہ بخاریٰ نے سلم کے ساتھ دوبارہ صلح کر لی اور بخاریٰ نئے سرے سے فتح ہو گیا۔[1] صغد میں قیام کے دوران سلم نے مسلمانوں کا ایک لشکر (خُجَنْدہ) بھیجا جس میں مشہور
Flag Counter