Maktaba Wahhabi

44 - 503
اور اس کے ماتحت لوگوں کا بھی۔ دوسری طرف اسے لہو و لعب کے رسیا اور دنیوی اہداف و مقاصد رکھنے والوں کی ہم نشینی سے احتراز کرنا چاہیے۔ ان کی خوش گفتاری اور مدح سرائی میں دل آویزی کا سامان تو ہو سکتا ہے مگر وہ سنجیدہ اور اہم امور کے بارے میں سوچ و بچار کے راستے میں حائل ہو جائیں گے۔ پھر جب اس کی آنکھیں کھلیں گی تو کئی آفتیں اس کے اور اس کے ماتحت لوگوں کے سر کچل رہی ہوں گی اور بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہو گا۔ دشمن سے ٹکراؤ کی صورت میں قائد لشکر کو شجاعت و دلیری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور بزدلی وپست ہستی جیسی کسی چیز کو قریب بھی نہیں پھٹکنے دینا چاہیے، اس لیے کہ قائد کی بزدلی لشکر میں بھی سرایت کر جائے گی جس کی وجہ سے سبھی کو ناکامی اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قائد و مسؤل کو میدان جنگ کے علاوہ بھی ہر موقع پر حالات و واقعات کا بہادری کے ساتھ سامنا کرنا چاہیے اس لیے کہ اس کی کمزوری کے اثرات اس کے ادارہ میں کام کرنے والے لوگوں پر پڑیں گے، اس سے ان کی کارکردگی متاثر ہو گی اور پیداوار میں کمی واقع ہو جائے گی۔ کمانڈر کو غلول سے اجتناب کرنا چاہیے۔ غلول سے مراد ہے: مال غنیمت کو تقسیم کرنے سے قبل اس میں سے کچھ مال پر قبضہ جما لینا، اس کا تعلق میدان جنگ کے ساتھ ہے۔ جبکہ اسے صلح کے میدانوں میں بھی دنیوی مفادات کے حصول سے اجتناب کرنا چاہیے۔ جن کے بارے میں اسے معلوم ہو کہ یہ شرعاً اس کے لیے جائز نہیں ہیں۔ مثلاً ایسے تحائف وصول کرنا جن سے مقصود ناجائز مفادات کا حصول ہو۔ اس لیے کہ یہ چیزیں بھی غلول کے ضمن میں آتی ہیں اور جیسا کہ اس حدیث میں وارد ہوا ہے غلول فقر و فاقہ کے قریب کرتا ہے اور نصرت باری تعالیٰ کا راستہ روک دیتا ہے۔ مذکورہ بالا نکات سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وصیت کی عظمت کی عکاسی کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے کمانڈر کو اسے محاذ جنگ پر بھیجتے ہوئے فرمائی تھی۔ اس گرانقدر وصیت سے یہ حقیقت بھی نکھر کر سامنے آ جاتی ہے کہ خلیفۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلمانوں کے مسائل اور ان کی مشکلات کا بڑی شدت کے ساتھ احساس تھا اور وہ ان امور سے بخوبی آگاہ تھے جن سے ان کے کمانڈروں کو واسطہ پڑ سکتا تھا، لہٰذا ان کی پوری کوشش ہوتی کہ انہیں ہر وہ مدد فراہم کی جائے جن سے وہ ان مشکلات کے وقوع پذیر ہونے سے محفوظ رہیں اور ان کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں ان کے ازالہ کے قابل ہو سکیں۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ اور اس جیسی دیگر وصیتیں ان کی طرف سے متعدد مواقع پر اختیار کردہ مواقف میں خوبصورت اور جدید اضافہ ہیں۔[1] بیان کردہ روایت میں واضح ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یزید(بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ ) کو جنگ کے حوالے سے وصیت کرتے وقت بھی انسانی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں فرمایا۔ آپ نے انہیں دس نکات پر مشتمل جنگی قوانین اپنانے کی وصیت فرمائی جو کہ اسلامی تہذیب کے انسانی پہلو اور رحمت و شفقت سے معمور اس کی روح کے عکاس ہیں۔ یہ وصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے ماخوذ ہے: ’’لوگو! میں تمہیں دس چیزوں کی وصیت کرتا ہوں انہیں اچھی
Flag Counter