Maktaba Wahhabi

429 - 503
کر دیا، جب لوگوں نے اس سے کہا: کاش تم عقبہ کو اس کے منصب پر برقرار رہنے دیتے، وہ بڑے مقام و مرتبے اور فضل و شرف کے حامل ہیں، تو انہوں نے جواب دیا: ہم ابو المہاجر کے صبر و حوصلہ کا انہیں صلہ دینا چاہتے ہیں۔[1] عقبہ اپنی معزولی کے بعد اپنی خفگی کا اظہار کرنے کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس دمشق گئے اور ان سے کہنے لگے: میں نے شہر فتح کیے، گھر تعمیر کیے، جامع مسجد بنائی، اور اس کا صلہ تم نے مجھے یہ دیا کہ انصار مدینہ کے غلام کو بھیج دیا جس نے مجھے بڑے برے طریقے سے معزول کیا۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے معذرت کرتے ہوئے کہا: تم خلیفہ مظلوم کے بارے میں مسلمہ بن مخلد کے موقف سے بخوبی آگاہ ہو، وہ انہیں مقدم رکھتے تھے، وہ ان کے خون کا مطالبہ لے کر اٹھے اور اس کے لیے خون جگر دیا۔[2] معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دوبارہ ان کے منصب پر فائز کرنے کا وعدہ کیا مگر جیسا کہ ابن العذاری نے لکھا ہے معاملات تاخیر کا شکار ہوتے گئے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی اور حکومت یزید کے ہاتھ میں آ گئی تو اس نے عقبہ کو افریقہ کا والی بنا کر واپس بھجوا دیا۔[3] اس موضوع کے بارے میں ایک نکتہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، اور وہ ہے عقبہ کی معزولی کے دوران ابو المھاجر کی ان کے ساتھ بدسلوکی۔ مصادر بتاتے ہیں کہ ابوالمھاجر نے عقبہ کے ساتھ بڑی بدسلوکی کا مظاہرہ کیا۔ انہیں حوالہ زنداں کیا اور انہیں بیڑیوں میں جکڑ دیا۔[4] مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ ابو المھاجر نے ایسا کیوں کیا؟ ڈاکٹر عبدالشافی محمد عبداللطیف اپنی معرکہ آراء کتاب میں لکھتے ہیں: ہمیں معلوم نہیں کہ ابو المہاجر کو ایسا کرنے کو کس چیز نے اکسایا؟ ہمارے لیے مسلمہ بن مخلد پر عائد کردہ ڈاکٹر حسین مونس کی اس تہمت کو قبول کر لینا مشکل ہے جو کہ عقبہ کے ساتھ روا رکھی گئی کہ اس بدسلوکی کے پیچھے ان کا ہاتھ تھا۔[5] اس لیے کہ اس کی دلیل نہیں ہے، جب مسلمہ نے ابو المھاجر کو افریقہ کا والی بنایا تو اس بارے میں عبدالحکیم رقمطراز ہیں: مسلمہ نے ابو المھاجر کو والی مقرر کرتے وقت وصیت کی کہ وہ عقبہ کو عزت سے معزول کریں، مگر ابو المھاجر نے ان کی حکم عدولی کرتے ہوئے انہیں برے طریقے سے ان کے عہدے سے معزول کیا اور انہیں بیڑیوں میں جکڑ کر قید میں ڈال دیا یہاں تک کہ خلیفہ کے حکم پر مبنی انہیں یہ خط ملا کہ انہیں رہا کر کے میرے پاس بھیجا جائے۔[6] پھر آگے چل کر کہتے ہیں: جب عقبہ مصر سے گزرے تو مسلمہ نے ان سے ملاقات کر کے قسم اٹھائی کہ ابو المھاجر نے میری حکم عدولی کرتے ہوئے یہ کچھ کیا۔ میں نے تو اسے تمہارے بارے میں خاص طور پر حسن سلوک کی وصیت کی تھی۔[7] مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ابو المھاجر نے اپنے آقا کی وصیت کی مخالفت کرتے ہوئے عقبہ کے ساتھ اس قسم کا ناروا سلوک کیوں کیا۔ جبکہ وہ ذاتی طور پر عقبہ کے مقام و مرتبہ سے بخوبی آگاہ تھا اور وہ ان کا احترام بھی کیا کرتا تھا، جب عقبہ نے اس کے حق میں بددعا کی تو وہ پریشان ہو کر کہنے
Flag Counter