Maktaba Wahhabi

41 - 503
کرنا اور آغاز شب کی ذمہ داری کا دورانیہ آخر شب کی ذمہ داری سے کم رکھنا، ان سے کبھی غافل نہ ہونا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا اگر ایسا نہیں کرو گے تو ان میں بیگاڑ پیدا کر دو گے۔ ان کی جاسوسی مت کرنا اگر ایسا کرو گے تو انہیں رسوا کر دو گے۔ ان کے اندرونی معاملات سے ہٹ کر صرف ان کے ظاہر پر ہی اکتفا کرنا۔ فضول لوگوں کی مجالس سے اجتناب کرنا سچے اور باوفا لوگوں کے ساتھ ہی میل جول رکھنا اور انھیں مخلصانہ بنانا۔ بزدلی نہ دکھانا اگر تم ایسا کرو گے تو تمہارے ماتحت لوگ یقینا بزدلی کا مظاہرہ کریں گے۔ بددیانتی سے اجتناب کرنا یہ چیز فقر و فاقہ کو قریب کرتی اور نصرت الٰہی کا راستہ روک دیتی ہے۔ تمہیں ایسے لوگ بھی ملیں گے جنہوں نے اپنے آپ کو گرجا گھروں میں بند کر رکھا ہو گا ان سے کوئی تعرض نہ کرنا۔ ابن الاثیر فرماتے ہیں: ’’یہ بااختیار لوگوں کے لیے بڑی عمدہ اور انتہائی نفع بخش وصیت ہے۔‘‘[1] اس وصیت کے بعض فوائد: ٭ مناصب اور عہدوں پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے اور نہ ہی یہ کسی کا استحقاق ہے بلکہ یہ صلاحیتوں، مخلصانہ کاوشوں اور ان میں کامیابیوں کے مرہون منت ہیں۔ اعلیٰ عہدوں پر فائز اور بااختیار لوگوں کے فرائض میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اگر ان کے ماتحت لوگ سستی و کاہلی اور بدعملی کا مظاہرہ کریں تو وہ انہیں معزول کر دیں۔ اگر جواب دہی کا یہ تصور اجاگر ہو جائے تو وہ لوگ مقاصد کے حصول کے لیے اپنی کاوشوں کو کئی گنا بڑھا دیں گے۔ لیکن اگر انہیں بہرصورت ان کے عہدوں کے تحفظ کی ضمانت دے دی جائے گی تو وہ فرائض کی ادائیگی میں سستی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اور ذاتی مفادات کے حصول میں مصروف ہو سکتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی ذمہ داری کی ادائیگی میں خلل ڈالے گا اور اپنے ماتحتوں کے بگاڑ، تنازعات اور بدامنی جیسے رویوں کو جنم دے گا۔ ٭ خوف الٰہی کامیابیوں کے حصول کا اہم ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے ظاہر اور باطنی جملہ امور سے بخوبی آگاہ ہے۔ جب لوگ دل سے تقوی اختیار کریں گے تو وہ اپنے ظاہری معاملات میں بطریق اولی ایسا کریں گے۔ اسی طرح بااختیار اور ذمہ دار عہدے دار بگاڑ اور بگاڑ پیدا کرنے والے تمام مظاہر سے اجتناب کریں گے۔ ٭ آباء و اجداد اور قوم و قبیلہ کے لیے متعصب ہونا انسان کو صراط مستقیم سے انحراف کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ نیز اس سے اس واحد اسلامی رابطہ سے نسبت کمزور پڑ سکتی ہے جو اسلامی اخوت و مودت سے عبارت ہے۔ ٭ پند و نصیحت میں اختصار سے کام لینا اس لیے کہ طویل گفتگو ذہن میں محفوظ نہیں رہتی جس کے نتیجہ میں وہ غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہے۔ طویل گفتگو سے اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے اور اگر متکلم فصیح اللسان ہو تو سامعین اس کی خوش کلامی کے سحر میں ڈوب کر رہ جاتے ہیں اور اگر وہ اس وصف سے عاری ہے تو پھر سامعین اکتا جائیں گے اور جو کچھ وہ کہنا چاہتا ہے اسے ذہنوں میں محفوظ نہیں رکھ سکیں گے۔
Flag Counter