Maktaba Wahhabi

397 - 503
رِعَایَتِہَا فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْہُمْ اَجْرَہُمْ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فَاسِقُوْنَo﴾ (الحدید: ۲۷) ’’رہبانیت (ترک دنیا) تو انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی ہم نے ان پر اسے واجب نہ کیا تھا سوائے اللہ کی رضا جوئی کے، سو انہوں نے اس کی پوری رعایت نہ کی پھر بھی ہم نے ان میں سے جو ایمان لائے تھے انہیں ان کا اجر دیا اور ان میں سے زیادہ تر لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ایسا انہونا دین پروان چڑھا جسے کنیسہ اور اس کے رجال کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے اور جن کی قیادت پاپا(پوپ) کے ہاتھ میں ہے جو زندگی کے تمام گوشوں میں سنگین قسم کی سرکشی کے مختلف رنگ متعارف کرواتا، عقل و فکر سے عداوت رکھتا، ان کے استعمال پر پابندیاں لگاتا، علماء پر ظلم ڈھاتا اور انہیں علمی بحث و مباحثہ سے روکتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں زندگی ہر پہلو سے پیچھے رہ گئی، مگر اس کا جو ردّعمل ہوا وہ بہت ہی برا تھا جس کا مشاہدہ الحاد و بے دینی، دین سے دوری بلکہ دین سے عداوت کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یوں کنیسہ کے ہاتھوں آسمانی رسالت اپنے نزول کے مقاصد سے ہاتھ دھو بیٹھی، اور اصلاح کی جگہ فساد کا دور دورہ ہو گیا، عیسائیت کے پہلے دور میں بھی یہی کچھ ہوا اور دوسرے دور میں بھی۔[1] اس کے برعکس زمین میں اسلامی پھیلاؤ انسانی تاریخ میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے، وہ اس شہنشاہیت کی وسعت پذیری سے بالکل ہٹ کر ہے جس کی جاہلیت قدیمہ و جدیدہ مشق کرتی رہی ہے۔ وہ اس تباہ کن طغیان و سرکشی سے بالکل مختلف ہے جس کی تحریف شدہ نصرانیت مشق کرتی چلی آئی ہے۔ تاریخ عالم کی اس انوکھی تحریک کے دوران مسلمان گمراہی کی جگہ ہدایت، تاریکیوں کی جگہ روشنی اور حکمرانوں، کاہنوں اور بتوں کی پرستش کی جگہ صحیح عبودیت پھیلاتے رہے، زمین میں زیردستوں کو آزادی کے پروانے عطا کرتے رہے، لوگوں کو ان کی گم شدہ انسانیت واپس کرتے رہے اور انہیں انسان کے شایانِ شان مقام پر فائز کرتے رہے۔ وہ عدل و انصاف، اخوت و مودت، رواداری اور برداشت کی ایسی قدروں کو عام کرتے رہے جن کی اسلام کے علاوہ کہیں مثال نہیں ملتی۔ مسلمان ایسی عالی شان اور ہمہ گیر حقیقی تہذیب کی اشاعت کرتے تھے جسے وہ صرف اپنے لیے ہی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ انہوں نے اس کے دروازے زمین میں رہنے والے ہر مسلمان کے لیے کھول رکھے تھے، بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اندلس، مشرقی یورپ کے نصاری اور عالم اسلام کے مختلف شہروں اور علاقوں میں رہنے والے یہودی بھی اس کے سایہ عاطفت میں راحت محسوس کرتے تھے، ہندوستان میں گائے کے پجاری اور بت پرست تک بھی اس اسلامی تہذیب کے گھنے سائے میں پرلطف زندگی گزارتے تھے۔ اہل اسلام نے مفتوحہ ممالک کی دولت کو کبھی نہیں لوٹا اور نہ اپنی حکومتی طاقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں کے باسیوں کو دبانے کی کوشش کی۔ وہ سب سے پہلے انہیں مجسمہ خیر دین اسلام کی دعوت دیتے اگر وہ اسے قبول کر لیتے تو وہ دینی اعتبار سے ایک دوسرے کے بھائی بن جاتے اور اگر وہ اس سے انکار کرتے تو مسلمان ان سے جزیہ کا مطالبہ کرتے اور اگر وہ اس سے بھی انکار کرتے تو پھر
Flag Counter