Maktaba Wahhabi

372 - 503
فرزندان دنیا اپنے خدام کو کسی بڑے کام کا مکلف بناتے ہیں تو صرف دنیوی اعمال کا مکلف بناتے ہیں ان کے نزدیک اخروی عمل کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی، جبکہ فرزندانِ آخرت کی خوشی کی اس وقت کوئی حد نہیں رہتی جب وہ اپنے خدام کو اخروی اعمال کے لیے سرتوڑ کوشش کرتے دیکھتے ہیں اس لیے کہ اس طرح وہ اپنی خوبی توجیہات کی وجہ سے اجر جزیل حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔[1] ھ: فقر و فاقہ اور عفت و پاک دامنی:… ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا شمار فقراء و مساکین لوگوں میں ہوتا ہے۔ آپ فقر و فاقہ کی شدت کے باوجود بھی صابر و شاکر رہے۔ یہاں تک کہ وہ بھوک کی وجہ سے اپنا پیٹ کنکریوں پر بچھا دیتے اور یوں شب و روز تڑپتے تڑپتے گزارا کرتے مگر انہیں ایسی کوئی چیز میسر نہ آتی جو اُن کی پشت کو سیدھا کر سکتی۔[2] سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بازار میں گھومتے رہتے پھر گھر آکر پوچھتے: کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ اگر وہ نفی میں جواب دیتے تو فرماتے: پھر میں روزے سے ہوں۔[3] آپ بڑے قناعت پسند اور اللہ کی نعمتوں پر شاکر رہنے والے تھے۔ اگر کبھی پندرہ کھجوریں کہیں سے میسر آ جاتیں تو پانچ کھجوروں سے روزہ افطار کرتے، پانچ کے ساتھ سحری کرتے اور پانچ افطاری کے لیے رکھ لیتے۔[4] آپ بکثرت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ فضل و خیر پر بڑی کثرت کے ساتھ اس کی تسبیح و تحمید اور تکبیر بیان کرتے۔[5] و: حلم و حوصلہ اور عفو و کرم:… ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس ایک سیاہ فام لونڈی تھی جس نے اپنے عمل و کردار سے انہیں زچ کر رکھا تھا، ایک دن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کوڑا اٹھاتے ہوئے اس سے کہا: اگر قیامت کے دن قصاص کا مسئلہ نہ ہوتا تو میں تجھ پر اس کی بارش برسا دیتا، میں تجھے اس کے ہاتھ فروخت کروں گا جو اس دن مجھے تیری پوری پوری قیمت دے گا جب مجھے اس کی بہت زیادہ ضرورت ہو گی۔ چلی جا، تو اللہ کے لیے آزاد ہے۔[6] یوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی خادمہ پر اپنی قدرت اور اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا موازنہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچاؤ کو اپنی ناراضی کے مقتضی کی تنفیذ پر ترجیح دیتے نظر آتے ہیں اور خادمہ کے ساتھ بدسلوکی کرنے اور اسے سزا دینے کی بجائے اس پر احسان کرتے ہوئے اسے لوجہ اللہ آزاد کر دیتے ہیں۔ یوں انہوں نے متعدد اعمال صالحہ اپنے نامۂ اعمال میں جمع کر لیے، مثلاً اللہ تعالیٰ کی خشیت، بدسلوکی کے مرتکب کو معاف کرنا اور اس پر احسان کرنا۔ اس سے یہ امر بھی منکشف ہوتا ہے کہ اخروی زندگی کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تصور بڑا گہرا تھا، اور یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نگرانی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا کرتے تھے اور اس کی رضامندی کے حصول کے لیے کوشاں رہا کرتے تھے۔[7]
Flag Counter