Maktaba Wahhabi

345 - 503
اس خطبہ سے بصرہ شہر میں پھیلی بدامنی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بصرہ میں زیاد کی آمد سے پہلے بعض قانون شکن عناصر نے ارتکاب جرائم کو اپنا وطیرہ بنا رکھا تھا۔ جب زیاد نے اپنا خطبہ ختم کیا تو اس نے پولیس کے سربراہ کو راستوں کو پرامن بنانے اور رات کے وقت گھر سے نکلنے والے ہر شخص کو قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔[1] بلاذری روایت کرتے ہیں کہ زیاد نے اپنی اس دھمکی پر عمل کرنے میں میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا اور جو کیا اس پر عمل کر دکھایا۔[2] ۳۔ شرعی سزاؤں کا نفاذ:… عصر اموی میں پولیس کی ایک اہم ذمہ داری ان شرعی حدود کا نفاذ تھا جن کا قاضی حکم جاری کیا کرتے تھے، اور جیسا کہ سبھی کے علم میں ہے کہ حدود شرعیہ کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے جبکہ سنت نبویہ ان کی تبیین کرتی ہے، صحابہ و تابعین دینی احکامات کے لیے بڑے غیور اور ان کے نفاذ کے بڑے حریص تھے۔ امام مالک روایت کرتے ہیں کہ ایک غلام نے کھجور کا ایک چھوٹا پودا چرا لیا اور وہ اس سے برآمد بھی ہو گیا جس کی پاداش میں مروان نے اسے جیل میں بند کر دیا[3] اور پھر اس نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کر لیا، غلام کا مالک حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے اس بارے میں دریافت کیا، انہوں نے اسے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھل اور شگوفہ خرما میں قطع ید نہیں ہے۔‘‘ اس پر وہ آدمی کہنے لگا: مروان بن حکم نے میرے غلام کو پکڑ لیا ہے اور وہ اس کا ہاتھ کاٹنا چاہتا ہے، میں چاہتا ہوں کہ آپ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آگاہ کرنے کے لیے میرے ساتھ چلیں۔ رافع اس کے ساتھ مروان کے پاس گئے اور اس سے فرمایا: تو نے اس کے غلام کو گرفتار کیا ہے۔ اس نے کہا: ہاں۔ انہوں نے پوچھا: تو اس کے ساتھ کیا کرنا چاہتا ہے؟ اس نے جواب دیا: میں نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کیا ہے۔ اس پر رافع نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ: ’’پھل اور شگوفہ خرما میں قطع ید نہیں ہے۔‘‘ اس پر مروان نے غلام کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔ اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ گورنرز اور عمال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام کرتے اور ان کے تصرفات سے کوئی تعرض نہیں کرتے تھے جب تک ان کے پیچھے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی تنفیذ کا جذبہ موجود ہو۔ چاہے وہ بات والی کی ذمہ داریوں کے ضمن میں ہی کیوں نہ آتی ہو۔[4] دینی احکام کے اوامر پر غیرت کے مظاہر اور دوسروں پر اللہ تعالیٰ کے احکام کو غلبہ دینے کے ضمن میں یہ بات بھی آتی ہے کہ مدینہ منورہ کی پولیس کے سربراہ مصعب بن عبدالرحمن بن عوف نے بنو ہاشم اور بنو اسد بن عبدالعزی کے گھروں کو گرانے اور ان پر سختی کرنے سے انکار کر دیا اس لیے کہ وہ حسین بن علی رضی اللہ عنہما اور ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے وفادار تھے اور انہوں نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا تھا۔ مصعب نے مدینہ منورہ کے امیر عمرو سعید[5] کو
Flag Counter