Maktaba Wahhabi

301 - 503
شے کو حرام نہیں جانتے اور نہ دین حق کو قبول کرتے ہیں ان لوگوں میں سے جنہیں کتاب دی گئی ہے یہاں تک کہ وہ ذلیل و خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔‘‘ جزیہ سنت سے بھی ثابت ہے، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کسریٰ کے عامل کے ترجمان سے فرمایا تھا: ’’ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم تم سے قتال کریں یہاں تک کہ تم ایک اللہ کی عبادت کرو یا پھر جزیہ ادا کرو۔[1] اہل ذمہ سے جزیہ کی وصولی اجماع امت سے بھی ثابت ہے۔[2]امویوں نے جزیہ کے نظام میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں کیا تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس دور میں جزیہ کا حصول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ حکومت میں رائج نظام کے ہی تابع تھا، اور اس کے مندرجہ ذیل نکات تھے: ا: کن لوگوں سے جزیہ وصول کیا جائے گا، اس ضمن میں صرف عاقل و بالغ مرد ہی آتے تھے۔[3] ب: جو لوگ اس سے مستثنیٰ ہیں، وہ یہ تھے: عورتیں، بچے، پرانے مریض، غلام، دیوانے، اندھے، بوڑھے اور راہب جن کا کوئی ذریعہ آمدن نہ ہو۔[4] جزیہ عائد کرتے وقت لوگوں کی مالی حالت کا بھی خیال رکھا جاتا۔ متمول آدمی پر اڑتالیس درہم سالانہ، متوسط طبقہ کے لوگوں پر فی کس چوبیس درہم سالانہ اور اس سے نچلے طبقہ کے لوگوں پر فی کس بارہ درہم سالانہ، بشرطیکہ وہ برسر روزگار ہو۔[5] جزیہ وصولی کے مندرجہ ذیل دو معیار تھے: (۱) معیار مسؤلیت:… اس کی رو سے جزیہ کی دو اقسام تھیں: جزیہ فردیہ:… یہ وہ جزیہ تھا جو اس کی شروط پوری کرنے والے ہر شخص پر محدود مقدار میں عائد کیا جاتا جو اسلام قبول کرنے کی صورت میں ساقط کر دیا جاتا۔ اجتماعی یا مشترکہ جزیہ:… اس کی صورت یہ تھی کہ کسی بستی یا شہر والوں پر کسی معین مقدار میں جزیہ عائد کیا جاتا اور وہ اس رقم کو اپنے افراد پر تقسیم کر لیتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں اس کی مثال یہ ہے کہ آپ نے اہل اذرح کے ساتھ اس شرط پر صلح کی کہ وہ ہر سال ماہ رجب میں سو دینار جزیہ ادا کیا کریں گے۔[6] عصر اموی میں زیادہ تر جزیہ اسی قسم کا تھا۔[7] (۲) نقدی اور عینی معیار:… اس کی رو سے جزیہ تین اقسام میں منقسم تھا: نقدی جزیہ، عینی جزیہ اور مشترکہ جزیہ۔ عصر اموی میں جزیہ کی ان تمام اقسام پر عمل کیا جاتا تھا، ہمارے سامنے ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو اس سے خروج کی طرف اشارہ کرتی ہو، اور خاص طور سے اس وقت جب شریعت اسلامیہ شرائط صلح کے التزام کا
Flag Counter