Maktaba Wahhabi

265 - 503
فریضہ سر انجام دیتا تھا جو اقالیم اسلامیہ میں ان کے ملازمین اور عہدے داروں اور ان بیرونی شہروں سے متعلق ہوتے جن کا مملکت اسلامیہ کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا۔[1] معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں دیوان رسائل کے مشہور نگرانوں اور کاتبوں میں عبداللہ بن اوس غسانی اور زمل بن عمرو عذری کے نام سرفہرست ہیں۔ یہ دونوں کاتب یزید اوّل کی حکومت کے دوران بھی کتابت کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔[2] یہ دیوان امراء، فوجی کمانڈروں، قاضیوں اور ان قبائل کے زعماء سے رابطہ کا موثر ذریعہ تھا جو معاویہ رضی اللہ عنہ کے تابع تھے اور ان کی براہ راست نگرانی میں مختلف امور سرانجام دیا کرتے تھے۔ ب: دیوان الخاتم:… اس دیوان کے قیام کا مقصد سرکاری احکامات و خطوط کو خائن اور جعل ساز قسم کے لوگوں سے بچانا[3] اور محفوظ طریقہ سے متعلقہ لوگوں تک پہنچانا تھا، دار الخلافہ اور مملکت اسلامیہ کے صوبوں کے درمیان آمدن و اخراجات کے حسابات سے متعلق احکامات و مراسلات کی تحقیق کے لیے حکومت اس دیوان پر اعتماد کرتی تھی۔[4] مزید برآں دیوان دوسرے محکمہ جات اور ان کے جاری کردہ احکامات کی نگرانی کرتا اور ان میں پائی جانے والی غلطیوں کی نشاندہی کرنا بھی اس کے فرائض میں شامل تھا۔ یہ دیوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کی مہر سے یکسر مختلف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر کا مطلب مہر کے ساتھ دستخط کرنا تھا، جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور اموی دور حکومت کا یہ دیوان دیگر دواوین کے جاری کردہ اعمال و احکام کی تحقیق و تفتیش کی مشینری کی حیثیت رکھتا تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کی سرکاری مہر کے انچارج عبداللہ بن محصن حمیری تھے اور یہ مہر بنوانے کا سبب یہ بنا کہ ایک دفعہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عمرو بن زبیر رضی اللہ عنہما کی مدد اور اس کے قرض کی ادائیگی کے لیے ایک لاکھ درہم دینے کا حکم جاری کیا اور اس کے لیے عراق کے گورنر زیاد بن ابیہ کے نام خط لکھا، مگر عمرو بن زبیر رضی اللہ عنہما نے جعل سازی کرتے ہوئے ایک لاکھ کو دو لاکھ میں تبدیل کر دیا۔ زیاد نے اس رقم کی ادائیگی کر دی مگر جب اس کا حساب معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اس پر اعتراض لگا دیا، جس پر زیاد نے اسے گرفتار کروا کر اس سے رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا جس کی ادائیگی اس کی طرف سے اس کے بھائی عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کی۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے دیوان الخاتم کا محکمہ قائم کیا اور خطوط کو سیل بند کیا جانے لگا جبکہ قبل ازیں یہ طریقہ مروج نہیں تھا۔[5] درحقیقت دیوان خاتم قائم کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں دولت اسلامیہ کی جغرافیائی حدود میں بڑی وسعت ہو گئی تھی اور خلیفہ کو اپنے عمال، قائدین اور حکومتی اہلکاروں
Flag Counter