Maktaba Wahhabi

259 - 503
بتایا کہ جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ ان کے ساتھیوں کے سرکردہ لوگ ہیں، وہ میرے جیسی رائے کے حامل اور میرے حکم کے پابند ہیں۔[1] جب ان لوگوں کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے انہیں فوراً قتل نہیں کروایا تھا اور نہ ہی ان سے علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ لاتعلقی اختیار کرنے کا مطالبہ کیا تھا جیسا کہ بعض روایات کا دعویٰ ہے۔[2] بلکہ اس کے لیے انہوں نے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کیا۔ اپنے اہلِ مشورہ سے مشاورت کی اور پھر ان کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے بعض کو قتل کر دیا جائے جبکہ بعض دوسروں کو زندہ چھوڑ دیا جائے۔ اس کی دلیل شرحبیل بن مسلم کی یہ روایت ہے کہ جب حجر بن عدی رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کو عراق سے لا کر معاویہ رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کیا گیا تو انہوں نے انہیں قتل کرنے کے بارے میں لوگوں سے مشورہ کیا، اس پر بعض لوگوں نے تو اپنی رائے کا اظہار کیا جبکہ کچھ خاموش رہے، جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز ادا کر لی تو خطبہ دینے کے لیے لوگوں میں کھڑے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کرنے کے بعد منبر پر بیٹھے تو اعلان کرنے والے نے اعلان کیا: عمرو بن اسود عنسی کہاں ہیں؟[3] وہ اٹھے اور حمد و ثنا کے بعد فرمایا: ہم اللہ کی طرف سے جس مضبوط قلعہ میں محفوظ ہیں ہمیں اسے ترک کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اہل عراق کے بارے میں آپ کا فیصلہ ہی معتبر ہو گا، اس لیے کہ آپ راعی ہیں اور ہم رعیت، ان کی بیماری کے بارے میں آپ ہم سے زیادہ آگاہ ہیں اور آپ ہی ان کا بہتر علاج کر سکتے ہیں، ہم تو صرف یہی کہنے کے پابند ہیں: ﴿سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیْکَ الْمَصِیْرُo﴾ (البقرۃ: ۲۸۵) ’’ہم نے سن لیا اور مان لیا، ہمارے پروردگار! تیری معافی مقصود ہے اور تیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ پھر اعلان کیا گیا کہ ابو مسلم خولانی کہاں ہیں؟ وہ اٹھے اور حمد ثنا کے بعد کہنے لگے: امیر المومنین! جب سے ہم نے تم سے پیار کیا ہے تم سے بغض نہیں رکھا، نہ تمہاری اطاعت قبول کرنے کے بعد تمہاری نافرمانی کی ہے۔ تمہارے ساتھ اکٹھے ہونے کے بعد تم سے جدا نہیں ہوئے اور تم سے بیعت کرنے کے بعد اسے توڑا نہیں۔ اگر تم حکم دو گے تو ہم تمہاری اطاعت کریں گے، اگر ہمیں بلاؤ گے تو تمہاری دعوت پر لبیک کہیں گے۔ پھر عبداللہ بن مخمر شرعبی اٹھے اور اللہ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمانے لگے: امیر المومنین! اگر تم اس عراقی گروہ کو سزا دو گے تو درست کرو گے اور اگر معاف کر دو گے تو احسان کرو گے، اس کے بعد عبداللہ بن اسد قسری کو آواز دی گئی تو انہوں نے اللہ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد فرمایا: امیر المومنین! ہم تمہاری رعیت اور تمہارے اطاعت گزار ہیں۔ اگر آپ انہیں سزا دیں گے تو یہ اس کے سزا وار ہیں اور اگر معاف کر دیں گے تو معاف کرنا تقویٰ سے قریب تر ہے۔ ہمارے بارے میں کسی ایسے ظالم کی بات نہ ماننا جو رات بھر سویا رہتا ہے اور آخرت کے علم سے اکتایا رہتا ہے۔[4] میں نے شرحبیل سے پوچھا: [5] ان لوگوں کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا: بعض کو
Flag Counter