Maktaba Wahhabi

235 - 503
سے انحراف یا اوامر اسلام اور اس کے حکومتی منہج سے ارتداد اختیار کیا گیا ہو اور جو تبدیلی آئی تھی اس کا بھی سیاسی اور اجتماعی ارتقاء کا جواز موجود تھا اور جیسا کہ ابن خلدون کا موقف ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ اور اموی عہد حکومت میں خلافت کی حقیقت اس طرح سے موجود تھی کہ دین اور موقف دین کی جستجو کی جاتی تھی اور مواقف حق کا التزام کیا جاتا تھا۔ تبدیلی صرف یہ آئی کہ دین (قومی)عصبیت اور تلوار میں تبدیل ہو گیا، معاویہ، مروان، عبد الملک بن مروان اور عباسی خلفاء کے آغاز سے رشید اور اس کے بعض بیٹوں کے ادوار حکومت میں یہی صورت حال برقرار رہی۔ پھر اس کے بعد مفہوم خلافت کا یکسر اختتام ہو گیا اور وہ صرف نام کی حد تک باقی رہ گئی۔[1] ابن خلدون کا یہ موقف مطلقاً قابل تسلیم نہیں ہے، اس لیے کہ دولت عثمانیہ کے عہد کے دوران محمد الفاتح کے زمانہ میں اسلامی فتوحات، دعوت اسلام، عدل و انصاف اور اعزاز اسلام جیسے خلافت کے بعض معانی و مقاصد نے نئے سرے سے انگڑائی لی تھی۔ شرع عصبیت یا بادشاہت کی اس صورت میں قطعاً مذمت نہیں کرتی جب اس سے مقصود اقامت دین اور اظہار حق ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تھی: ﴿رَبِّ اغْفِرْ لِیْ وَہَبْ لِیْ مُلْکًا لاَّ یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ﴾ (صٓ: ۳۵) ’’میرے پروردگار! مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما جو میرے بعد کسی ایک کے لیے بھی درست نہ ہو۔‘‘ اور یہ اس لیے کہ انہیں اپنے بارے میں معلوم تھا کہ وہ نبوت اور بادشاہت کے دوران باطل سے الگ تھلگ رہیں گے۔[2] اسی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ جو بادشاہت خلافت کے مخالف بلکہ اس کے منافی ہے وہ جبر و قہر ہے۔[3] جس سے مقصود بغیر حق لوگوں پر تسلط جمانا ہو۔ جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنی خلافت کے دوران یہ رویہ ہرگز نہیں تھا۔ خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقاصد اور خلفاء راشدین کی خلافت کے مقاصد میں اس شدید قرب کو ہمارے بعض فقہاء اور مؤرخین نے بخوبی محسوس کیا اور پھر اس کا اظہار بھی کیا، مثلاً ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ اس امر کا متقاضی ہے کہ ہماری شریعت میں خلافت کی بادشاہت کے ساتھ آمیزش جائز ہے اگرچہ خالص خلافت افضل ہے۔[4] اگر ہم یہ کہیں تو حقیقت سے دور نہیں جائیں گے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور بعض اموی خلفاء خلفائے راشدین کی سیرت کاملہ پر گامزن رہنے کی شدید خواہش رکھتے تھے مگر وہ اپنی رعایا اور زمانے کے احوال و ظروف کی وجہ سے اس پر قادر نہ ہوں گے۔خلفائے راشدین نے اسلامی اور انسانی سیاست میں جو رفیع الشان مثالیں قائم کیں ان کی پرکشش تاثیر بعض خلفاء اور رعیت کے نزدیک کارگر تھی مگر اسے اپنانا ان کی ہمت و قدرت میں نہیں تھا، وہ اسے متحقق کرنے کے لیے اپنے آپ کو کھپا دیتے مگر پھر اس کوشش اور تجربہ کی صعوبت کا اعتراف کرتے ہوئے امر واقع کی کشش کی طرف واپس لوٹ آتے۔[5]
Flag Counter