Maktaba Wahhabi

226 - 503
کے قابل ہو سکے گا۔ علماء اسلام نے ان حقوق کی بھی نشان دہی کر دی ہے، جن میں سے اہم تر مندرجہ ذیل ہیں: ۱۔ اس کے جملہ اوامر و نواہی میں اس کی اطاعت کرنا بشرطیکہ وہ احکام شرعیہ سے متعارض نہ ہوں جب تک وقت تک خلیفہ وقت یا سربراہ مملکت اپنے احکامات و منہیات میں شرعی حدود و قیود کا التزام کرتا رہے گا اور ان سے تجاوز نہیں کرے گا اسے تمام اہل وطن کی طرف سے ولاء کا حق حاصل رہے گا۔ چاہے وہ امت کے رئیس کے طور پر اس کی بیعت کرنے والے اہل حل و عقد ہوں یا اس کے تمام اہل وطن جن پر اس بیعت کے اتمام کے ساتھ ہی اس کی اطاعت واجب ہو جاتی ہے۔ ۲۔ بوقت ضرورت اس کی نصرت و حمایت کرنا، خلیفہ جب تک اپنے حکم میں راہ حق پر گامزن رہے گا اس وقت تک باغیوں اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف اس کی مدد کرنا ساری امت پر واجب رہے گی، اس لیے کہ امام حق کی مدد کرنا درحقیقت مسلمانوں کی مدد کرنا ہے، تاکہ دین قائم رہے اور غلط کار لوگوں کو جرائم کے ارتکاب سے روکا جا سکے۔ ۳۔ دیگر مراعات کے ساتھ اسے اس قدر مشاہرہ دینا جو اس کے لیے اور اس کے زیر کفالت لوگوں کے لیے کافی ہو، اور یہ اس لیے کہ اس کا سارا وقت ریاستی ذمہ داریاں ادا کرنے میں صرف ہو جاتا ہے اور اسے اکتسابِ رزق کے لیے کوئی وقت نہیں ملتا، لہٰذا اس کے لیے اس قدر مشاہرہ مقرر کرنا ضروری ہے جو اسے دوسروں سے بے نیاز کر دے اور جو اس کے مقام و منصب کے شایان شان ہو، بایں طور کہ وہ نہ تو اس کی ضرورت سے کم ہو اور نہ اس سے اسراف و تبذیر ہی لازم ہوتا ہو، اور یہ اس لیے کہ حکمرانوں اور قاضیوں کی تنخواہیں مسلمانوں کے مال سے ادا کی جاتی ہیں۔ جسے خرچ کرتے وقت محتاط رہنا چاہیے۔ ۴۔ خلیفہ کی طرف سے جن امراء، ولاۃ اور قضاۃ کو ان کے عہدوں پر فائز کیا گیا ہو اگر وہ اپنے اختیارات سے تجاوز کریں یا اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے کوتاہی برتیں تو اس سے خلیفہ کو مطلع کرنا اور یہ اس لیے کہ امام شرعاً اس بات کے لیے مکلف ہے کہ وہ ان لوگوں کے اعمال و افعال کی نگرانی کرے جنہیں اس نے بااختیار عہدوں پر فائز کیا ہے۔ اگر یہ لوگ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی عدم ادائیگی کے مرتکب ہوں گے اور خلیفہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر رہے گا تو وہ اس کے لیے عند اللہ جواب دہ ہو گا۔ جبکہ افرادِ امت کے تعاون کے بغیر اس کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔ ۵۔ اگر اسے امت کے مفادات کے تحفظ کے لیے معاونت کی ضرورت ہو تو اسے ضروری تعاون فراہم کرنا۔ اس لیے کہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی﴾ (المائدۃ: ۲) ’’نیکی اور تقویٰ کے کاموں کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کیا کرو۔‘‘ حکمران اور بااختیار سرکاری اہل کار اس تعاون کے سب سے بڑھ کر حق دار ہیں۔[1]
Flag Counter