Maktaba Wahhabi

197 - 503
بنا پر صحیح تھی کہ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع تھا اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ ان کے حق میں دستبردار ہو گئے تھے مگر وہ گزشتہ خلافت کے منہاج پر نہیں تھی، معاویہ رضی اللہ عنہ نے مباحات میں بڑی وسعت اختیار کی جبکہ خلفاء اربعہ ان سے احتراز کیا کرتے تھے، اسی طرح عبادات و معاملات میں بھی ان کا رجحان کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔[1] ابن خلدون کا کہنا ہے کہ اگرچہ خلافت بادشاہت میں تبدیل ہو گئی تھی مگر اس میں خلافت کی بعض خصوصیات باقی تھیں، جو نظام حکومت پہلے دینی تھا اب وہ عصبیت اور شمشیر زنی میں تبدیل ہو گیا مگر خلافت کے اہداف و مقاصد باقی رہے۔ اس دوران شریعت اسلامیہ کے مطابق عدل کا دور دورہ تھا اور اسلامی احکامات کے مطابق واجبات شرعیہ کا التزام کیا جاتا تھا، یعنی حکومت یا بادشاہت اسلامی اور شرعی تھی۔[2] ابن خلدون خلافت کے مختلف ادوار کا تذکرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: آغاز کار میں خلافت بادشاہت کی آمیزش کے بغیر معرض وجود میں آئی، پھر اس کے معانی و خصوصیات میں التباس پیدا ہو گیا اور اس کی بادشاہت کے ساتھ آمیزش ہو گی۔[3] ابن خلدون جس پہلے دور کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ خلفاء راشدین کا دور ہے اور وہ خالص یا کامل خلافت کا کارنامہ ہے۔ جب کہ دوسرا دور اموی اور عباسی خلفاء کا ہے، اس میں عثمانی دور حکومت کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔ یہ بادشاہت کے ساتھ مخلوط خلافت یا خلافت کے ساتھ مخلوط بادشاہت کا ہے، یعنی ایسی بادشاہت جو مقاصدِ خلافت کی نگہبان تھی۔ جبکہ تیسرا دور محض بادشاہت کا دور ہے جس سے مقصود بادشاہت کی قدامت کا حصول اور دنیوی اغراض و مقاصد کی تکمیل تھا اور یہ حقیقت خلافت یا اس کی دینی خصوصیات سے بہت دور تھی۔[4] حقیقی یا کامل خلافت یا خلافتِ نبوت تیس سال تک جاری رہی اور یہ خلفاء راشدین کا زمانہ ہے، پھر خلافت بادشاہت میں تبدیل ہو گئی مگر اس دور میں خلافت کلیتاً ناپید نہیں ہو ئی تھی بلکہ اس کے معانی یا مقاصد باقی تھے تبدیلی اس اساس میں ہوئی تھی جس پر وہ قائم تھی جہاں تک اس کی حقیقت کا تعلق ہے تو وہ باقی تھی، گویا کہ یہ تبدیلی کلی نہیں بلکہ جزئی تھی، اس کی مزید وضاحت اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ عصر اوّل میں خلافت کامل اور مثالی تھی پھر بعض وجوہات سے اس کی مثالیت میں نقص در آیا مگر اس کے زیادہ تر عناصر باقی رہے، یہ کم درجہ کی خلافت تھی یا بادشاہت سے مخلوط خلافت تھی۔[5] اسلام میں عمومی رائے مثالی خلافت، خلافت نبوت یا خلافت کاملہ سے وابستہ ہے اور یہ شوریٰ اور امت کے انتخاب و اختیار تام پر قائم ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خلافت کا بادشاہوں اور ان کے نائبین، ولاۃ، امراء اور قضاۃ کے ہاتھوں میں آجانا صرف ان میں موجود نقص کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ یہ نقص ان کے ساتھ ساتھ ان کی رعیت میں بھی موجود تھا اس لیے کہ جس طرح کی رعایا ہوتی ہے ان پر حکمران بھی ویسے ہی مسلط کیے جاتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter