Maktaba Wahhabi

194 - 503
ابن حزم فرماتے ہیں: پہلے حسن رضی اللہ عنہ سے بیعت کی گئی اور پھر یہ معاملہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا گیا۔ جبکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جو بدون اختلاف ان دونوں سے افضل تھے اور یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے فتح سے قبل خرچ بھی کیا اور قتال بھی۔ ان سب لوگوں نے اوّل سے آخر تک معاویہ رضی اللہ عنہ سے بیعت کی اور ان کی خلافت کو درست تسلیم کیا۔[1] یقینا ان اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے اس وقت ہی بیعت کی جب انہوں نے دیکھا کہ ان میں عدالت سمیت امامت کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں۔ اب اگر کوئی شخص معاویہ رضی اللہ عنہ کی عدالت و امامت پر طعن کرتا ہے، جس شخص کو ان عظیم لوگوں نے اپنے دین اور دنیا کے لیے پسند اور قبول کیا تو کیا اسے ہم قبول نہ کریں اور اسے ہم پسند نہ کریں؟ ان میں سے جس نے یہ کہا کہ شاید انہوں نے کسی خوف کے پیش نظر ان سے بیعت کی ہو گی، تو یہ ان نفوس قدسیہ پر بزدلی اور کتمان حق کی تہمت ہے جو کہ یقینا ناروا ہے، وہ تو ایسے لوگ ہیں جن کی شجاعت و بسالت سے ہر کوئی آگاہ ہے اور یہ کہ وہ اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پروا نہیں کیا کرتے تھے۔[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنا اپنے اندر تشتت و افتراق سے نہی پر مشتمل قرآنی آیات کا گہرا فہم اور درس بلیغ رکھتا ہے، مثلاً قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo﴾ (الانعام: ۱۵۳) ’’اور یہ کہ یہ دین میرا سیدھا راستہ ہے، پس تم اس راہ پر چلو اور دوسری راہوں پر نہ چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی، اس کا اللہ نے تم کو تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم پرہیز گاری اختیار کرو۔‘‘ صراط مستقیم سے مراد قرآن، اسلام اور فطرت ہے جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا فرمایا، اور سبل سے مراد نفسانی خواہشات، فرقے اور بدعات و خرافات ہیں۔ مجاہد فرماتے ہیں: سبل سے مراد بدعات، شبہات اور گمراہیاں ہیں۔[3] اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اختلاف اور تفرق جیسی ان چیزوں سے منع فرمایا جن میں گزشتہ امتیں مبتلا ہو گئیں اور یہ اس امر کے بعد ہوا جب ان کے پاس واضح دلائل آئے اور اللہ نے ان پر کتابیں اتاریں۔ ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ ہُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اُولٰٓئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌo﴾ (آل عمران: ۱۰۵) ’’اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا، انہی لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس امت کو اختلاف سے بچنے اور اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: ﴿وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا﴾ (آل عمران: ۱۰۳)
Flag Counter