Maktaba Wahhabi

190 - 503
جبیر بن نفیر سے مذکور ان کا یہ قول ہے کہ میں نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپ خلافت کے خواست گار ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عرب کے با اثر لوگ میری مٹھی میں تھے وہ ان سے صلح کرتے جن سے میں صلح کرتا اور اس سے جنگ کرتے جن سے میں جنگ کرتا، مگر میں نے اسے اللہ کی رضا کے لیے چھوڑ دیا۔[1] یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا ان کے ابناء میں سے کسی نے بھی یزید کی بیعت کے درمیان اس بات کا حوالہ نہیں دیا تھا، اگر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ولی عہد مقرر کرنے کی کوئی بات ہوتی تو اسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ یزید کے خلاف دلیل کے طور سے استعمال کرتے مگر ایسی کوئی بھی بات ہمارے علم میں نہیں آئی، اور یہ اس بات کی تاکیدی دلیل ہے کہ اس بات کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ اگر شروط صلح میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے لیے ولی عہد کے منصب کی شرط رکھی گئی ہوتی تو وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد امارت میں حکومتی حلقوں کے قریب رہتے یا کسی بڑے صوبہ کے والی کے منصب پر فائز ہوتے نہ کہ حکومتی معاملات سے الگ ہو کر مدینہ منورہ میں گوشہ نشین ہو جاتے۔ پھر اس سے بڑھ کر یہ بات بھی ہے کہ اس دور کی روح اس امر کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ امت اسلامیہ حاکم کا انتخاب شوریٰ کے ذریعہ کرتی تھی اور یہی اصل طریق کار ہے۔ رابعًا:… صلح کے نتائج ۱۔ ایک ہی قیادت کے تحت امت کا اتحاد و یگانگت۔ ۲۔ گزشتہ ادوار کی طرح فتوحات اسلامیہ کا آغاز۔ ۳۔ خوارج کے خلاف حکومت کا یکسو ہونا۔ ۴۔ اسلامی دار الحکومت کا سر زمین شام میں منتقل ہونا۔
Flag Counter