Maktaba Wahhabi

170 - 503
کے حکم کی طرف لوٹ آئے، پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بے شک اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو اس بات کا حکم دے رہا ہے کہ جب مومنین آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کروا دیا کرو۔ اس لیے کہ وہ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ قتل و قتال انہیں وصف ایمان سے خارج نہیں کرتا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مومنین کے نام سے موسوم کیا ہے۔ جب عام مسلمانوں کو قتل و قتال ایمان سے خارج نہیں کرتا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو جنگ جمل کے موقع پر اور بعد ازاں آپس میں لڑ پڑے تو وہ سب سے پہلے اس ایمان کے دائرہ میں داخل ہیں جس کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ وہ اپنے رب کے نزدیک حقیقی مومن ہیں اور ان کے باہمی مشاجرات کسی بھی حالت میں ان کے ایمان پر اثر انداز نہیں ہوئے۔ اس لیے کہ وہ ان کے اجتہاد کا نتیجہ تھے۔[1] ۲۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مسلمانوں کی گروہ بندی کے وقت ایک گمراہ جماعت تیزی سے نکلے گی جسے دو جماعتوں میں سے حق سے زیادہ قریب جماعت قتل کرے گی۔‘‘[2] اس حدیث میں جس گروہ بندی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان پیدا ہونے والا اختلاف ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں جماعتوں کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ مسلمان ہوں گی اور دونوں حق سے وابستہ ہوں گی، یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیل ہے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ بتایا سب کچھ اس کے مطابق ہی ہوا، اس میں اہل شام اور اہل عراق دونوں جماعتوں کو مسلمان بتایا گیا ہے اور جاہل رافضی فرقہ کی طرف سے اہل شام کی تکفیر کرنے کو غلط قرار دیا گیا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اور اصحاب علی رضی اللہ عنہ حق سے زیادہ قریب تھے ، اہل سنت کا بھی یہی مذہب ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کا موقف درست تھا، اور اگرچہ معاویہ رضی اللہ عنہ مجتہد تھے اور وہ ان شاء اللہ ماجور من اللہ بھی ہیں۔ مگر امام علی رضی اللہ عنہ تھے اور وہ دوہرے اجر کے حق دار ہیں، جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جب حاکم اجتہاد کرے اور صحیح نتیجے پر پہنچے تو اسے دوہرا اجر ملے گا اور اگر اجتہاد میں اس سے غلطی سرزد ہو جائے تو اسے ایک اجر ملے گا۔‘‘[3] ۳۔ ابوبکرہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اس دوران حسن رضی اللہ عنہ آئے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرا یہ بیٹا سردار ہے، یقینا اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔‘‘[4] اس حدیث میں اہل عراق اور اہل شام کی دو جماعتوں کے اسلام کی
Flag Counter