Maktaba Wahhabi

160 - 503
انہوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اس معاہدہ کو خوشی سے تسلیم کیا ہے۔ ۲۔ علی رضی اللہ عنہ اہل عراق کے ذمہ دار ہوں گے یہاں موجود لوگوں کے بھی اور غیر موجود لوگوں کے بھی جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ اہل شام کے ذمہ دار ہوں گے یہاں موجود لوگوں کے بھی اور غیر موجود لوگوں کے بھی۔ ۳۔ قرآن عزیز جو بھی فیصلہ کرے گا ہم اسے صدقِ دل سے تسلیم کریں گے۔ ۴۔ علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت نے عبداللہ بن قیس (ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ) کو جبکہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو حکم مقرر کیا ہے۔ ۵۔ علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ فیصلہ کے دوران قرآن کو اپنا امام بنائیں گے اور اس سے ہرگز تجاوز نہیں کریں گے اور اگر انہیں قرآن سے راہنمائی نہ ملے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف رجوع کریں گے۔ ۶۔ یہ دونوں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں جو بھی فیصلہ کریں گے وہ فریقین کے لیے واجب التسلیم ہو گا اور انہیں اس سے انحراف کی اجازت نہیں ہو گی۔ ۷۔ حَکمَین کی جان، مال، اہل و عیال اور اولاد بالکل محفوظ رہیں گے اور وہ حق سے تجاوز نہیں کریں گے، اس سے کوئی راضی ہو یا ناراض۔ ۸۔ اگر فیصلہ کے اعلان سے قبل حَکمَین میں سے کوئی ایک مر جائے تو اس کے أعوان و أنصار کو اس کی جگہ کسی دوسرے ایسے شخص کو منتخب کرنے کا حق حاصل ہو گا جس کا شمار اہل عدل و صلاح میں ہوتا ہو۔ ۹۔ اگر فیصلہ کے اعلان سے قبل امیرین میں سے کسی ایک امیر کا انتقال ہو جائے تو اس کی جماعت اس کی جگہ کسی دوسرے آدمی کو اپنا امیر مقرر کر سکے گی۔ ۱۰۔ اس دوران فریقین میں مذاکرات ہوتے رہیں گے، ہتھیار اٹھانے پر پابندی ہو گی اور امن و امان کو برقرار رکھا جائے گا۔ ۱۱۔ اس معاہدہ کی شرائط کا اطلاق امیرین، حکمین اور فریقین پر یکساں ہو گا، اور اگر حکمین اس معاہدہ کی مخالفت کریں یا اپنی حدود سے تجاوز کریں تو امت ان کے فیصلہ سے لاتعلق ہو گی اور وہ ان کے ساتھ کیے گئے عہد و پیمان کی پابند نہیں ہو گی۔ ۱۲۔ فیصلہ آنے تک لوگوں کو ان کی جان، مال، اہل و عیال اور اولاد کے حوالے سے امن و امان حاصل ہو گا، اسلحہ رکھ دیا جائے گا، راستے پرامن رہیں گے اور فریقین میں غائب شخص پر بھی وہی حکم لاگو ہو گا جو حاضر پر ہو گا۔ ۱۳۔ حکمین شام اور عراق کے درمیان کسی مناسب جگہ پر ملاقات کر سکتے ہیں۔ ۱۴۔ ان کے پاس صرف وہی شخص آ سکے گا جسے وہ باہم مشاورت اور رضامندی سے وہاں آنے کی اجازت دیں گے۔ ۱۵۔ صلح کی یہ مدت رمضان المبارک کے اختتام تک جاری رہے گی، اگر حکمین اس سے قبل فیصلہ سنانا چاہیں تو انہیں اس کا حق ہو گا اور اگر وہ مدت کے اختتام تک اسے موخر کرنا چاہیں تو
Flag Counter