Maktaba Wahhabi

81 - 548
لوگوں میں عام ہوتا اور تمام لوگ اس کو جان لیتے، یہ ایک معمولی واقعہ تھا جو وہاں سے غیر حاضر لوگوں پر مخفی رہ سکتا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ اس کے تذکرہ کی ضرورت نہ ہونے کے باعث اس کے نقل کرنے پر خاطر خواہ توجہ دی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ علما نے ذکر کیا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اس پوری مدت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قطع تعلق کا بالقصد ارادہ نہیں کیا تھا، ان کے جیسی شخصیت اس بات سے مبرا ہوگی اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن سے زیادہ قطع تعلق سے روکا ہے، ان کی عدم گفتگو کا سبب ضرورت کا فقدان تھا۔ [1] صاحب ’’المفہم‘‘ قرطبی حضرت عائشہ کی سابقہ حدیث کی شرح میں کہتے ہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سانحہ اور گھر سے باہر نہ نکلنے کے باعث حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہ کرسکیں، راوی نے اس کو قطع تعلق سے تعبیر کردیا، ورنہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لَا یَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ یَجْہُرَ أَخَاہُ فَوْقَ ثَـلَاثٍ۔)) [2] ’’کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔‘‘ اور وہ حلال وحرام کو بہت اچھی طرح جانتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت سے بہت دور رہنے والی تھیں، اور ایسا کیوں نہ ہوتا جب کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر اور جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔ [3] حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تمام چیزوں سے منقطع ہو کر اپنے والد کی وفات کے حادثہ جان کاہ کے غم و الم میں مشغول رہیں، اس حادثہ کی مصیبت کے مقابلے میں تمام مصیبتیں ہیچ تھیں، اسی طرح صاحب فراش بنا دینے والی اپنی بیماری کے باعث امت کے امور، ارتداد کی جنگوں وغیرہ میں ہر آن مشغول خلیفۃ المسلمین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات کرنے کو کون کہے ؟کسی بھی معاملے میں شرکت سے قاصر تھیں۔ اسی طرح انھیں اپنے ابا جان سے جا ملنے کا علم تھا اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منجانب اللہ انھیں بتا دیا تھا کہ وہی آپ کے اہل میں سے سب سے پہلے آپ سے جا ملیں گی۔ [4] جسے اس طرح کا علم ہوگا، اسے دنیا سے کوئی مطلب نہیں ہوگا۔ عینی کا نقل کردہ مہلب کا کیا ہی عمدہ قول ہے: کسی نے اس بات کی روایت نہیں کی ہے کہ وہ دونوں اکٹھے ہوئے ہوں اور سلام نہ کیا ہو، حقیقت یہ ہے کہ وہ
Flag Counter