Maktaba Wahhabi

154 - 548
میں سب سے زیادہ گہری نظر اور سمجھ والے تھے۔[1] واقعات بتلاتے ہیں کہ مشکلات سے نمٹنے میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما خلفائے راشدین سے کافی حد تک متاثر تھے، چنانچہ وہ اپنی خلافت میں سب سے اچھی سمجھ، گہری نظر رکھنے والے اور مسلمانوں کے اتحاد کے سب سے زیادہ حریص تھے۔ ہ:… مرتدین سے جنگیں: مرتدین کے خلاف جنگ کے سلسلے میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے بالکل درست تھی، اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے لیے حالات بھی اسی رائے کا تقاضا کر رہے تھے، اس کے علاوہ کسی دوسری رائے میں ناکامی، نقصان، شکست اور جاہلیت کی جانب لوٹ جانے کے علاوہ کچھ نہ ہوتا، اگر اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی، پھر مرتدین کے خلاف جنگ سے متعلق ابوبکر رضی اللہ عنہ کا سخت موقف نہ ہوتا تو تاریخ بدل جاتی، تاریخ کا رخ مڑ جاتا، وقت کی رفتار پیچھے کی طرف مڑ جاتی، اور روئے زمین پر جاہلیت اپنی تمام تر خرابیوں کے ساتھ لوٹ آتی۔[2] آپ کی شدید دینی غیرت اور اسلام کی صحیح سمجھ آپ کے اس قول سے واضح ہے: ((قَدِ انْقَطَعَ الْوَحْيُ وَ تَمَّ الدِّیْنُ أَیَنْقُصُ وَ أَنَا حَيٌّ۔))[3] ’’وحی کا سلسلہ ختم ہوچکا ہے، دین پورا ہوچکا ہے، کیا میں جیتے جی اس میں کمی آنے دوں گا؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مرتدین کے خلاف جنگ سے متعلق تمام صحابہ کی آراء کو سنا، اور اس بنا پر کہ آپ رائے کی پختگی اور قوتِ فیصلہ کے مالک تھے جنگ کا پختہ ارادہ کرلیا، اور صحیح رائے واضح ہوجانے کے بعد ایک لمحہ بھی تردد نہیں کیا، اور متردد نہ ہونا اس عظیم خلیفہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زندگی بھر کی جانی پہچانی عادت تھی۔[4] مسلمان آپ کی رائے پر مطمئن ہوگئے، آپ کی بات مان لی، اسے درست قرار دیا، اور آپ کا یہ قول: ((و اللّٰه لو منعوني عقالا کانوا یؤدونہ إلی رسول اللّٰه صلي الله عليه وسلم لقاتلتہم علی منعہ۔)) [5] ’’اللہ کی قسم ایک رسی بھی جو وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زکوٰۃ میں دیتے تھے اگر اس کو روک لیں گے تو میں ان سے قتال کروں گا۔‘‘
Flag Counter