Maktaba Wahhabi

236 - 548
کرلی، خاموش رہے، پھر دوسرے لوگوں نے بھی بیعت کی۔[1] اہل عراق نے جب بیعت کا ارادہ کیا تو حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے ان سے شرط لگاتے ہوئے کہا: تم لوگوں میں سمع و طاعت کا جذبہ ہے میں جن سے جنگ نہیں کروں گا ان سے تم لوگ بھی جنگ نہیں کرو گے، اورجن سے میں جنگ کروں گا ان سے تم بھی جنگ کروگے۔[2] دوسری روایت کے مطابق آپ نے ان سے کہا: اللہ کی قسم! میں تم سے ایک شرط پر بیعت لوں گا، لوگوں نے کہا: وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں جن سے جنگ نہیں کروں گا، ان سے تم لوگ بھی جنگ نہیں کرو گے، اور جن سے میں جنگ کروں گا ان سے تم بھی جنگ کرو گے۔[3] ابن سعد کی روایت میں ہے: حسن بن علی بن ابی طالب نے علی رضی اللہ عنہ کے بعد اہل عراق سے دو بیعتیں لیں، ایک خلافت کی، دوسری بیعت اس بات کی کہ جو کام وہ کریں گے وہی وہ سب کریں گے، اور جس چیز پر وہ راضی ہوں گے اس پر وہ سب راضی ہوں گے۔[4] سابقہ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ بنتے ہی حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کی راہ ہموار کرنی شروع کردی تھی، اس کی تفصیل آئندہ آرہی ہے۔ حسن رضی اللہ عنہ کی بیعت کا تجزیہ کرنے سے درج ذیل نتائج و فوائد سامنے آتے ہیں: اولاً:… خلافتِ حسن رضی اللہ عنہ کی تنصیص کا قضیہ باطل ہے: بیعتِ حسن رضی اللہ عنہ پر گفتگو کرتے وقت ایک ایسا قضیہ ہمارے سامنے آتا ہے جسے شیعہ امامیہ بڑے شد و مد سے رواج دیتے ہیں اور وہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی جانب سے خلافتِ حسن رضی اللہ عنہ کی تنصیص کا قضیہ ہے۔[5] اس کا شمار امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ پر افتراء پردازیوں میں ہوتا ہے، اس لیے کہ اس بارے میں کوئی منقول چیز ثابت نہیں ہے۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت نبوت کے مانند ہے، اس کے سلسلے میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی من جانب اللہ تنصیص ضروری ہے، اور نبوت ہی کی طرح وہ من جانب اللہ خاص لطف و کرم ہے اور ہر دور میں منجانب اللہ ایک امام ہونا ضروری ہے، جس کی اطاعت فرض ہو، انسانوں کو امام کے انتخاب و تعیین کا حق نہیں ہے، بلکہ امام کو بھی اپنے بعد کے امام کی تعیین کا حق نہیں ہے، اور انھوں نے اپنے ائمہ کی طرف سے اس بارے میں دسیوں
Flag Counter