Maktaba Wahhabi

287 - 548
((کَانَتْ جَمَاجِمُ الْعَرَبِ بِیَدِیْ یُسَالِمُوْنَ مَنْ سَالَمْتُ وَ یُحَارِبُوْنَ مَنْ حَارَبْتُ فَتَرَکْتُہَا ابْتِغَائَ وَجْہِ اللّٰہِ۔)) [1] ’’تمام عرب میری مٹھی میں تھے، میں جن کے لیے پرامن رہتا ان کے ساتھ وہ پر امن رہتے اور جن سے میں جنگ کرتا ان سے وہ بھی جنگ کرتے، لیکن میں نے اللہ کی خوشنودی کے لیے اسے (خلافت کو) ترک کردیا۔‘‘ ایک دوسری روایت میں آپ نے فرمایا: ((وَ لٰکِنْ خَشِیْتُ أَنْ یَّجِیْئَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سَبْعُوْنَ أَلْفًا أَوْ ثَمَانُوْنَ أَلْفًا أَوْ أَکْثَرُ أَوْ أَقَلُّ کُلُّہُمْ تَنْضِحُ أَوْدَاجُہُمْ دَمًا کُلُّہُمْ یَسْتَعْدِی اللّٰہُ فِیْمَ ہُرِیْقَ دَمُہٗ۔)) [2] ’’لیکن میں ڈر گیا کہ قیامت کے دن ستر ہزار یا اسّی ہزار یا کچھ کم و بیش لوگ اس حال میں آئیں کہ ان کی رگوں سے خون بہ رہا ہو، سب کے سب اللہ سے فریاد کر رہے ہوں کہ کس سلسلے میں ان کا خون بہایا گیا۔‘‘ علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے ہاتھ پر نوے ہزار لوگ بیعت کرچکے تھے،[3] پھر بھی آپ خلافت سے کنارہ کش ہوگئے اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے یہ کہتے ہوئے کردی: ’’میری وجہ سے کچھ بھی خون نہ بہے۔ ‘‘[4] ایک دوسری روایت میں کہتے ہیں: میں نہیں چاہتا کہ میں امت محمدیہ کی کسی ایسی ادنیٰ چیز کا ذمہ دار بنوں جس میں خون بہے، میں اپنے لیے ضرر رساں اور نفع بخش چیزوں کو جانتا ہوں، تم سب اپنے علاقو ں کو لوٹ جاؤ۔[5] ۴۔آپ کی سخاوت و فیاضی: حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی شخصیت میں رچے بسے قرآنی اخلاق میں سے سخاوت و فیاضی اور راہِ خدا میں بکثرت خرچ کرنا ہے، قرآن کریم نے خرچ کرنے والوں کی بڑی تعریف کی ہے، یہ تعریف قرآن کی ابتدا سے ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ دوسری سورت کے شروع ہی میں فرماتا ہے: (الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ﴿٣﴾ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ) (البقرۃ:۱-۳)
Flag Counter