Maktaba Wahhabi

172 - 548
میں اپنا معاملہ عثمان ( رضی اللہ عنہ ) کے حوالے کرتا ہوں، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اپنا معاملہ عبدالرحمن بن عوف ( رضی اللہ عنہ ) کے حوالے کرتا ہوں، اب امیدوار تین رہے: ۱۔ علی بن ابی طالب ۲۔ عثمان بن عفان ۳۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہم ۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ دونوں حضرات میں سے جو بھی خلافت سے اپنی براء ت ظاہر کرے ہم اسی کو خلافت دیں گے اور اللہ اس کا نگران و نگہبان ہوگا، اور اسلام کے حقوق کی ذمہ داری اس پر لازم ہوگی، آپ دونوں میں سے ہر شخص کو غور کرنا چاہیے کہ اس کے خیال میں کون افضل ہے۔ اس پر علی و عثمان رضی اللہ عنہما چپ رہے تو عبدالرحمن بن عوف نے کہا: کیا آپ دونوں یہ معاملہ مجھے سونپ رہے ہیں، اللہ کی قسم آپ دونوں میں سے جو افضل ہو گا اس کے سلسلے میں کوتاہی نہیں کروں گا؟ دونوں نے کہا: ہاں۔[1] ج:…عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو شوریٰ کی کاررائیوں کو چلانے کا اختیار سونپ دینا: اتوار کی صبح چھ امیدواروں کے اجتماع کے ختم ہوتے ہی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اپنی ملاقاتوں اور مشوروں کا سلسلہ شروع کردیا، چار محرم بدھ کی فجر تک پورے تین دن یہ سلسلہ جاری رہا، اسی وقت ان کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کی مقرر کردہ مہلت ختم ہو رہی تھی۔ آپ نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے ابتداء کرتے ہوئے کہا: اگر میں آپ کے لیے بیعت نہ کروں تو آپ خلافت کا حقدار کس کو سمجھتے ہیں ؟ تو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: عثمان رضی اللہ عنہ کو۔پھر عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس گئے، ان سے مشورہ کیا، مدینہ میں کبار صحابہ اور فوجوں کے قائدین میں سے جس سے بھی آپ کی ملاقات ہوتی، جو بھی مدینہ آتا ہر ایک سے آپ مشورہ کرتے، آپ نے پردوں کے پیچھے عورتوں سے مشورہ کیا ، ان تمام نے اپنی رائے کا اظہار کیا، اس طرح آپ نے مدینہ کے عام مسلمانوں، بچوں اور غلاموں سے مشورہ کیا، وہ لوگ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے حق میں مشورہ دے رہے تھے اور بعض لوگ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے حق میں۔ بدھ کی آدھی رات کو عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنے بھانجے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، دستک دی، مسور رضی اللہ عنہ کو سوتا پایا، دروازہ پیٹنے پر جاگے، تو ان سے کہا: تم سو رہے ہو، اللہ کی قسم میں ان تین راتوں میں اچھی طرح سو نہیں سکا ہوں، جاؤ زبیر و سعد ( رضی اللہ عنہما ) کو بلا لاؤ، وہ انھیں آپ کے پاس بلا کر لائے، آپ نے ان سے مشورہ کیا پھر مجھے بلایا کہا جاؤ علی ( رضی اللہ عنہ ) کو بلا لاؤ، میں انھیں بلا کر لایا، آدھی رات تک آپ ان سے تنہائی میں گفتگو کرتے رہے، پھر علی رضی اللہ عنہ ان کے پاس سے چلے گئے، پھر آپ نے کہا: جاؤ عثمان ( رضی اللہ عنہ ) کو بلا لاؤ، انھیں بلا
Flag Counter