Maktaba Wahhabi

443 - 548
بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حسن رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہوئے تو ناحق ان کے سبب کچھ بھی خون نہیں بہا،[1] آپ اس کا صراحت سے اظہار کرتے اور اس پر فخر کرتے تھے، نبوی وصیت کی تنفیذ اور ایمانی تربیت کی راہ پر چلنے کو عزت افزائی کا سبب سمجھتے تھے۔‘‘[2] اللہ تعالیٰ نے حسن رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے اہل عراق اور ساری امت کے مابین صلح کرائی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مصالحت کا شمار حسن رضی اللہ عنہ کے فضائل میں کیا ہے، اگر ترکِ خلافت اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مصالحت کے بجائے جنگ ہی مطلوب ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مطلوب فعل کے ترک اور غیرمطلوب فعل کو انجام دینے نیز افضل کو چھوڑ کر غیرافضل کام کو کرنے پر آپ کی تعریف نہ کرتے، معلوم ہوا کہ حسن رضی اللہ عنہ کی مصالحت ہی اللہ اور اس کے رسول کو پسند تھی نہ کہ جنگ۔[3] دوسرا مرحلہ: اہل عراق کی بیعت کو قبول کرنے کے لیے حسن رضی اللہ عنہ کی بنیادی شرط یہ تھی کہ وہ لوگ ان لوگوں سے صلح کریں گے جن سے وہ صلح کریں گے، اور جن سے وہ جنگ کریں گے ان سے وہ لوگ بھی جنگ کریں گے،[4] چنانچہ میمون بن مہران سے مروی ہے کہتے ہیں کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے علی رضی اللہ عنہ کے بعد اہل عراق سے دو باتوں کی بیعت لی، خلافت کی اور اس بات کی کہ وہ وہی کریں گے جو وہ کریں گے اور جس پر وہ راضی ہوجائیں گے اس پر وہ لوگ بھی راضی ہوجائیں گے۔[5] خالد بن مضرب کے طریق سے مروی ایک دوسری روایت ہے کہتے ہیں: میں نے حسن رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا اللہ کی قسم! میں تم سے اپنی اس بات پر بیعت لوں گا، لوگوں نے پوچھا: وہ کون سی بات ہے؟ آپ نے فرمایا: میں جن سے صلح کروں گا ان سے تم صلح کرو گے اور جن سے میں جنگ کروں گا ان سے تم جنگ کرو گے۔[6] دونوں روایتو ں سے پتہ چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کو پورا کرنے کے لیے خلیفہ بنائے جانے سے پہلے ہی مصالحت کی پختہ نیت کرچکے تھے۔[7] حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی شرط سے عراقیوں کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ مصالحت کا معاملہ قابلِ بحث و
Flag Counter