Maktaba Wahhabi

461 - 548
بات کا یا لوگوں میں صلح کرانے کا حکم دے اور جو شخص صرف اللہ کی رضا مندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقینا بہت بڑا ثواب دیں گے۔‘‘ نیز ایسا کرنے والو ں کے لیے رحمت و مغفرت کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے: (وَإِن تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا) (النساء:۱۲۹) ’’اگر تم صلح کراؤ اور تقویٰ اختیار کرو تو بے شک اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت اور رحمت والا ہے۔‘‘ اس آیت میں صلح کرانے والوں کے لیے اللہ کی مغفرت و رحمت کا اشارہ ہے جیسا کہ دو صفتوں اللہ کی مغفرت اور رحمت پر آیت کے خاتمے سے پتہ چلتا ہے۔[1] اسی طرح ارشاد ربانی ہے: (فَمَنْ خَافَ مِن مُّوصٍ جَنَفًا أَوْ إِثْمًا فَأَصْلَحَ بَيْنَهُمْ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ) (البقرۃ:۱۸۲) ’’ہاں جو شخص وصیت کرنے والے کی جانب داری یا گناہ کی وصیت کردینے سے ڈرے پس وہ ان میں آپس میں صلح کرا دے تو اس پر گناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ پہلی آیت کی طرح اس میں بھی صلح کرانے والوں کے لیے اللہ کی رحمت و مغفرت کی جانب واضح اشارہ ہے۔[2] اللہ تعالیٰ نے اپنا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: (إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ الْمُصْلِحِينَ) (الاعراف:۱۷۰) ’’ہم صلح کرنے والوں کا ثواب ضائع نہ کریں گے۔‘‘ ۳۔صلح اور صلح کرانے والوں کی اچھے لفظوں میں تعریف: قرآن میں صلح کرانے پر رحمت و مغفرت اور اجر کے وعدوں کا بار بار ذکر ہے جس سے اللہ کے نزدیک اس کے بلند مقام و مرتبہ کا پتہ چلتا ہے، اسی لیے اس پر عمدہ بدلہ اور اجر عظیم مقرر کیا ہے، نیز اس کے بلند مقام و مرتبے کا پتہ اس سے بھی چلتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی اچھے لفظوں میں تعریف کی ہے، چنانچہ فرمایا: (وَالصُّلْحُ خَيْرٌ) (النساء:۱۲۸) ’’اور صلح بہتر چیز ہے۔‘‘ صلح کو بہتر قرار دینا اس با ت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے، اس کو بہتر قرار دینا اس لیے ہے کہ لوگوں کے اس باہمی میل ملاپ میں اس کی عظیم تاثیر ہوتی ہے، جسے صاحبِ شریعت
Flag Counter