Maktaba Wahhabi

157 - 548
آپ نے اپنا ہاتھ ان کے سر پر رکھ دیا۔[1] ۲۔اللہ کی قسم جو جوڑے میں نے تمھیں پہنائے ہیں مجھے اچھے نہیں لگ رہے ہیں: ابن سعد جعفر بن محمد باقر رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں وہ علی بن حسین رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں: عمر رضی اللہ عنہ کے پاس یمن سے کچھ جوڑے کپڑے آئے، آپ نے لوگوں کو پہنادیے ، لوگ جوڑوں میں واپس گئے، آپ قبر نبوی اور مسجد نبوی کے منبر کے مابین بیٹھے ہوئے تھے، لوگ آپ کے پاس آ آکر سلام کرتے رہے، آپ کو دعائیں دیتے رہے، حسن و حسین رضی اللہ عنہما اپنی والدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ گھر سے نکل کر لوگوں کے پاس سے گزرنے لگے، انھیں وہ جوڑے نہیں ملے تھے، عمر رضی اللہ عنہ چیں بہ جبیں ہوئے اور فرمایا: اللہ کی قسم جو جوڑے میں نے تمھیں پہنائے ہیں مجھے اچھے نہیں لگ رہے ہیں، لوگوں نے کہا: اے امیر المومنین آپ نے اپنی رعایا ہی کو پہنایا ہے اور اچھا کیا ہے، تو آپ نے فرمایا: ان دونوں بچوں کی وجہ سے، یہ لوگوں کے پاس سے گزر رہے ہیں اور ان پر کوئی جوڑا نہیں، گویا جوڑے ان سے بڑھ کر رہے اور یہ ان سے کمتر رہے، چنانچہ آپ نے یمن کے گورنر کو لکھا کہ حسن و حسین ( رضی اللہ عنہما ) کے لیے دو جوڑے جلد از جلد بھیجو، چنانچہ دو جوڑے بھیجے گئے اور آپ نے انھیں پہنائے۔[2] ۳۔عطیات میں حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور بنوہاشم کو مقدم رکھنا: ابوجعفر سے مروی ہے کہ فتوحات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کا حصہ مقرر کرنے کا ارادہ کیا، بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اکٹھا ہوئے، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ اپنی ذات سے ابتدا کیجیے، آپ نے فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم میں اس شخص سے ابتداء کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ کے قبیلے بنوہاشم سے سب سے زیادہ قریب ہوگا۔ آپ نے عباس رضی اللہ عنہ کا حصہ مقرر کیا، پھر علی رضی اللہ عنہ کا، یہاں تک کہ پانچ قبائل کے درمیان ترتیب قائم کی، اور اخیر میں بنوعدی بن کعب تک پہنچے، ترتیب یوں رکھی گئی کہ بنوہاشم میں جو لوگ بدر میں شریک تھے ان کے لیے عطیات مقرر کیے، پھر بنواُمیہ کے لوگوں کے لیے جو بدر میں شریک ہوئے، پھر جو زیادہ قریب تھا اسے، پھر اسے جو اس سے زیادہ قریب تھا ان سب کے حصے دیے۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت کی وجہ سے حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے لیے ان کے والد کا حصہ (جو اہل بدر کا حصہ تھا) مقرر کیا گیا، چنانچہ ان دونوں میں سے ہر ایک کے لیے پانچ ہزار درہم مقرر کیے۔[4]
Flag Counter