Maktaba Wahhabi

458 - 548
’’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کی مدت تیس سال ہے پھر اللہ تعالیٰ جسے چاہے گا بادشاہت عطا کرے گا۔‘‘ دوسری حدیث میں ہے: ((اَلْخِلَافَۃُ فِیْ أُمَّتِیْ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ مُلْکٌ بَعْدَ ذٰلِکَ)) [1] ’’میری امت میں خلافت تیس سال رہے گی، پھر اس کے بعد بادشاہت ہوگی۔‘‘ ابن کثیر رحمہ اللہ اس حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی خلافت کے خاتمے پر تیس سال پورے ہوجاتے ہیں، معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں انھوں نے خلافت سے تنازل ربیع الاول ۴۱ھ میں کیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر یہاں تک تیس مکمل ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ آپ کی وفات ربیع الاول ۱۱ھ میں ہوئی ہے اور یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی دلیلوں میں سے ایک دلیل ہے۔[2]اس طرح حسن بن علی رضی اللہ عنہما پانچویں خلیفۂ راشد ہیں۔‘‘[3] صلح کے اہم اسباب و محرکات وہاں بہت سارے اسباب و عوامل تھے جنھوں نے حسن رضی اللہ عنہ کو معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ صلح پر آمادہ کردیا: اولاً:… امت کی بھلائی کا ارادہ اور اخروی نعمتوں کی رغبت: نفیر حضرمی نے جب حسن رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں کا خیال ہے کہ آپ کو خلافت کا لالچ ہے تو اس کے جواب میں فرمایا: عرب سردار میری مٹھی میں تھے میں جس سے صلح کرتا اس سے وہ صلح کرتے اور جس سے جنگ کرتا اس سے وہ جنگ کرتے، لیکن میں اسے (خلافت کو) اللہ کی رضا کے لیے چھوڑ رہا ہوں۔[4] اور اپنی اس تقریر میں جس میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہونے کا اعلان کیا تھا، فرمایا تھا: ’’اگر میرا حق تھا بھی تو امت کی بھلائی کے لیے میں اسے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے چھوڑ رہا ہوں۔‘‘[5] حسن رضی اللہ عنہ کا تصور آخرت، اللہ کی رضا کو مقدم رکھنا، اتحاد واتفاق اور میل ملاپ کا حریص ہونا، صلح کے اہم اسباب وعوامل تھے، صلح کا اسلام میں عظیم مقام و مرتبہ ہے، معاشرتی اخلاق میں اس کی بہت اہمیت ہے، مادی اور
Flag Counter