Maktaba Wahhabi

464 - 548
اس باہمی اختلاف کو ختم کرکے صلح کرائے گا جس اختلاف کے آپ کی وفات کے بعد وقوع پذیر ہونے کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دے رکھی تھی۔ چنانچہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: ((قَالَ: رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي الله عليه وسلم عَلَی الْمِنْبَرِ وَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ إِلَی جَنْبِہِ وَ ہُوَ یُقْبِلُ عَلَی النَّاسِ مَرَّۃً وَ عَلَیْہِ أُخْرَی وَیَقُوْلُ: إِنَّ ابْنِیْ ہَذَا سَیِّدٌ وَّ لَعَلَّ اللّٰہَ أَنْ یُّصْلِحَ بِہِ بَیْنَ فِئَتَیْنِ عَظِیْمَتَیْنِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔)) [1] ’’کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر دیکھا آپ کی بغل میں حسن بن علی رضی اللہ عنہما تھے۔ آپ ایک بار لوگوں کی جانب متوجہ ہوتے، دوسری بار ان کی جانب، اور کہہ رہے تھے: میرا یہ لاڈلا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے مابین صلح کرائے۔‘‘ ثانیاً:… میرا یہ لاڈلا سردار ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے مابین صلح کرائے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا (اللہ تعالیٰ ان کے ذریعہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے مابین صلح کرائے) نے حسن رضی اللہ عنہ کو صلح کی منصوبہ بندی، اس سے متعلق رکاوٹوں کو دور کرنے، اور اس کے لیے نفسیاتی طور پر تیار ہونے پر آمادہ کردیا، یہی حدیث نبوی طرز زندگی، تصرفات اور میلانات میں حسن رضی اللہ عنہ کے لیے رہنما تھی، یہی رہنمائی آپ کے دل کی گہرائیوں میں پیوست تھی، آپ کے شعور و احساس پر چھائی ہوئی تھی، آپ کے گوشت پوست میں رچ بس گئی تھی، اسی رہنمائی کی روشنی میں آپ نے صلح کا منصوبہ تیار کیا، اس کے مراحل کی تقسیم کی، اور اس کے نتائج پر آپ کو یقین تھا، اس طرح صلح کے لیے حسن رضی اللہ عنہ کے تیار ہوجانے میں اسی حدیث کا مرکزی کردار تھا اور وہی بنیادی سبب بنی۔ ثالثاً:… مسلمانوں کی خونریزی کو روکنا: حسن رضی اللہ عنہ کا قول ہے: میں اس بات سے ڈر رہا ہوں کہ قیامت کے دن ستر ہزار یا کچھ کم و بیش لوگ اس حال میں آئیں کہ ان کی رگوں سے خون جاری ہو اور سب کے سب خونریزی کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے بدلہ دلانے کا مطالبہ کریں۔[2] نیز انھی کا قول ہے: ’’بلاشبہ اللہ کا حکم اگرچہ لوگ ناپسند کریں نافذ ہو کر رہے گا، مجھے یہ چیز بالکل پسند نہیں کہ میں امت
Flag Counter