Maktaba Wahhabi

128 - 548
’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جنھیں جو حکم اللہ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ جو حکم دیاجائے بجا لاتے ہیں۔‘‘ مربی باپ کے اوصاف مربی باپ کے چند ضروری اوصاف درج ذیل ہیں: ۱۔تربیت کی اہمیت کا احساس، اس کا مکمل اہتمام کرنا، اس میں اخلاص سے کام لینا: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادوں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی تعلیم و تربیت کا کماحقہ اہتمام کیا، اس میں بالکل مستعد رہے، ان کی مکمل طور سے نگہداشت کی، مقصد صرف اپنی اولاد کو اطاعت الٰہی و اطاعت نبوی کی تربیت دے کر اللہ کی خوشنودی، ثواب اور اس کا قرب حاصل کرنا تھا۔ ۲۔بچوں کے سامنے ایک اچھا نمونہ پیش کرنا: ’’نمونہ‘‘ اگرچہ علی الاطلاق تربیت کا اہم ترین وسیلہ نہ ہو، پھر بھی اس کے اہم ترین وسائل میں سے ہے، ایسا اس لیے ہے کہ انسانی وجود ایسا طبعی اور فطری جذبہ و میلان ہوتا ہے جو انسان کو دوسرے کے نقش قدم پر چلنے اور اس کی نقالی پر اصرار کے ساتھ مجبور کرتاہے، بالخصوص چھوٹے بچوں کو۔[1] ابن خلدون کا قول ہے: دوسرے کے نقش قدم پر چلنے اور اس کی نقالی کی ابتداء پانچویں یا چھٹے سال سے ہوتی ہے، اور بچپنے کے آخری مرحلے تک باقی رہتی ہے۔[2] امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ اپنے صاحبزادے حسن رضی اللہ عنہ کے لیے ایک عظیم نمونہ تھے، چنانچہ آپ کبار صحابہ اور خلفائے راشدین میں سے تھے، اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما دل کی گہرائی سے اپنے والد اور والدہ کے نقش قدم پر چلتے تھے۔ ۳۔امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ تربیت کے باب میں بڑے ہی نرم، مہربان اور رحم دل تھے: امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ رحم دلی اور حلم و بردباری سے آراستہ تھے، حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی تربیت میں بڑے ہی نرم دل اور مہربان تھے، آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک ان کے مقام و مرتبہ اور فضیلت کا پورا احساس تھا۔
Flag Counter