Maktaba Wahhabi

158 - 548
اس واقعہ سے عموماً اہل بیت سے اور خصوصاً حسن و حسین رضی اللہ عنہما سے عمر رضی اللہ عنہ کی محبت کی حقیقت کا پتہ چلتا ہے، اس لیے کہ عطیات کے سلسلے میں ان کے ساتھ خصوصی برتاؤ کرتے ہوئے انھیں سادات صحابہ کے پہلے طبقے میں رکھا، یہ محض ان دونوں سے محبت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ان دونوں کے مقام و مرتبہ کے احترام کا نتیجہ تھا۔ ۴۔وفات نبوی کے بعد حسن رضی اللہ عنہ کی والدہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ عمر رضی اللہ عنہ کا برتاؤ: اسلم عدوی سے مروی ہے کہتے ہیں: جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے بیعت کی گئی، تو علی و زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاکر مشورہ کرتے، جب عمر رضی اللہ عنہ کو اس کا پتہ چلا تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اور کہا: اے صاحبزادی رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے والد سے زیادہ دنیا میں کوئی بھی میرے نزدیک محبوب نہیں، اور ان سے مزید کچھ گفتگو کی، اور آپ کے والد کے بعد آپ سے زیادہ دنیا میں کوئی بھی میرے نزدیک محبوب نہیں، اس کے بعد علی و زبیر رضی اللہ عنہما فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو انھوں نے کہا: آپ دونوں لوٹ جائیں، پھر وہ دونوں ان کے پاس لوٹ کر نہیں گئے، یہاں تک کہ دونوں نے بیعت کرلی۔[1] صحیح اور ثابت شدہ بات یہی ہے اور یہ بات اپنی سند کی صحت کے ساتھ ساتھ اس نسل کے مزاج اور اس کے لیے اللہ کے تزکیہ سے میل کھاتی ہے۔ شیعی راویوں نے جھوٹ اور بہتان گھڑ کر اس روایت میں شامل کردیا ہے، اور کہا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تمھارے پاس یہ لوگ آئے تو ان کے اس گھر میں ہوتے ہوئے اس گھر کو آگ لگا دوں گا، اس لیے کہ بیعت نہ کرکے ان لوگو ں نے مسلمانوں میں اختلاف پیدا کردیا ہے، پھر ان کے پاس سے چلے گئے، جب وہ دونوں ان کے پاس دوبارہ آئے تو ان سے کہا: تمھیں معلوم ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے تھے، اور اس بات پر اللہ کی قسم کھائی ہے کہ اگر تم لوگ اس گھر میں دوبارہ آئے تو تمھارے اس میں ہوتے ہوئے وہ اس گھر کو ضرور جلادیں گے، اور اللہ کی قسم وہ اپنی قسم کو سچ کر دکھائیں گے، اس لیے میرے پاس سے چلے جاؤ پھر لوٹ کے مت آنا، چنانچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا، اور بیعت کے بعد ہی ان کے پاس دوبارہ آئے۔[2] عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ باطل قصہ ثابت نہیں ہے، اس بات کا دعویٰ کہ انھوں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر کو جلا دینے کا ارادہ کیا تھا سراسر جھوٹ ہے۔ طبرسی نے اپنی کتاب ’’دلائل الإمامۃ‘‘[3] میں طبری کی اس اور اسی طرح کی دوسری جھوٹی باتوں کو جابر جعفی سے نقل کیا ہے، جب کہ ذہبی کی ’’المیزان‘‘[4] اور ابن حجر کی
Flag Counter