Maktaba Wahhabi

536 - 548
بات آپ کے لیے فخر کے لیے کافی تھی، آپ کے والدعلی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ تھے جو ان خوش نصیب صحابہ میں سے ایک ہیں جنھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی خوشخبری دی ہے، اور چوتھے خلیفۂ راشد ہیں، ایسی صورت میں ایسا خطرناک کام انجام دے کر جعدہ کیاحاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔[1] بہت سارے لوگ اسلامی اتحاد کے دشمن تھے، حسن رضی اللہ عنہ کے کارنامہ نے ان کی دشمنی اور غصے میں اور اضافہ کردیا، اس بات پر ان کا یقین قوی تھا کہ آپ کا زندہ رہنا امت کے امن وامان کی ضمانت ہے، آپ امت کے اتحاد و اتفاق کے امام تھے، اس لیے حالات کے خراب ہونے اور پہلے کی طرح فتنوں کے واپس آجانے کے لیے ان کا خاتمہ اور صفایا کردینا ضروری تھا، اس لیے میری نظر میں اولاً متہم عبداللہ بن سبا کے متبعین ہیں جنھیں حسن رضی اللہ عنہ نے بہت سخت طمانچہ رسید کیا تھا، جب معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق میں خلافت سے دست بردار ہوگئے اور باہمی لڑائی کو روک دیا… دوسرے نمبر پر وہ خوارج ہیں جنھوں نے امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کو قتل کردیا تھا، اور یہ وہی ہیں جنھوں نے آپ (حسن رضی اللہ عنہ )کی ران پر حملہ کرکے زخمی کردیا تھا، ہوسکتا ہے کہ نہروان وغیرہ میں اپنے مقتولین کا بدلہ لینا چاہا ہو۔[2] ۴۔حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا خواب اوران کی وفات کا قریب ہونا: عمران بن عبداللہ بن طلحہ سے مروی ہے کہتے ہیں: حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے خواب دیکھا گویا ان کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہوا تھا: (قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ)اس سے وہ اور ان کے گھر والے خوش ہوگئے اور اس معاملے کو سعید بن مسیب سے بیان کیا تو انھوں نے کہا: اگر ان کا خواب سچا ہے تو ان کی زندگی بہت کم باقی ہے، چنانچہ وہ چند دن ہی زندہ رہے۔[3] ۵۔حسن رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری ایام: مدینہ کی زندگی میں انھیں کئی بار زہر دیا گیا، جب آخری بار زہر دیا گیا تو طبیب آیا اور کہا: زہر نے آپ کی آنتوں کو کاٹ کر رکھ دیا ہے۔[4] عمیر بن اسحاق کہتے ہیں: میں اور قریش کا ایک آدمی دونوں حسن رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، آپ اٹھے اور بیت الخلاء میں داخل ہوئے، پھر نکل کر کہا: میرے کلیجہ کا ایک ٹکڑا گرا ہے، جسے میں اس چھڑی سے الٹ پلٹ رہا تھا، مجھے کئی بار زہر دیا گیا، اس مرتبہ کا زہر سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ عمیر بن اسحاق کہتے
Flag Counter