Maktaba Wahhabi

462 - 548
انسانی معاشروں میں دیکھنا چاہتا ہے، نیز اس سے صلح کرانے والے اور اس پر راضی ہونے والے کے اخلاق کریمانہ کا پتہ چلتا ہے، اسی لیے یہ چیز رسولوں کے اہم اخلاق میں سے تھی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے شعیب علیہ السلام کی زبانی ارشاد فرمایاہے: (إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ) (ہود:۸۸) ’’میرا ارادہ تو اپنی طاقت بھر اصلاح کرنے کا ہے، میری توفیق اللہ ہی کی مدد سے ہے، اسی پر میرا بھروسا ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے قول کو نقل کیا ہے جس میں انھوں نے اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو مخاطب کیا تھا: (وَقَالَ مُوسَىٰ لِأَخِيهِ هَارُونَ اخْلُفْنِي فِي قَوْمِي وَأَصْلِحْ وَلَا تَتَّبِعْ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ) (الاعراف:۱۴۲) ’’اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا کہ میرے بعد قوم کا انتظام رکھنا اور اصلاح کرتے رہنا اور بدنظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا۔‘‘ ان دونوں آیتوں میں اصلاح عام ہے جو دین و دنیا کی اصلاح، نیز جھگڑا وغیرہ (جس سے کوئی انسانی معاشرہ خالی نہیں ہوتا) ہوجانے پر لوگوں کے مابین صلح کرانے کو شامل ہے۔[1] اسی قرآنی مقصد کے لیے حسن رضی اللہ عنہ صلح پر آمادہ ہوئے، صلح کی چاہت میں اپنے نانا صلی اللہ علیہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلح کرانے کی انتھک کوشش کرتے تھے، ایک دن اہل قباء میں جھگڑا کیا، ان کے مابین سنگباری ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو ٓپ نے فرمایا: چلو ہم ان کے مابین صلح کرائیں۔[2] غور کیجیے مسلمانوں میں اختلاف ہوجانے کے بعد اسے ختم کرانے اور معاملے کو طول پکڑنے سے پہلے ان کے مابین اتحاد و اتفاق اور صلح کرانے کے لیے جانے میں آپ نے ذرا بھی سستی و کوتاہی نہیں کی۔[3] لوگوں کے مابین صلح کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر اسلام نے جھگڑنے والوں کے مابین صلح کرانے کی غرض سے جھوٹ کی اجازت دی ہے، چنانچہ ارشاد نبوی ہے:
Flag Counter