Maktaba Wahhabi

383 - 548
تھے، اس طرح انھوں نے مہاجرین کی جو کچھ مدد کی، ان کے لیے جو قربانیاں پیش کیں، ان کا انکار ہوگا اور یہ ایک ایسے باطل قول کو ان کی جانب منسوب کرکے ان کے اسلام کو مطعون کرنا ہوگا، جس کی سند حد درجہ ضعیف ہے، اور اس کا متن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی سیرت، سمع و اطاعت پر ان کی بیعت اور ان کے فضائل و مناقب کے بالکل خلاف ہے۔[1] سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو یہ وصیت کی تھی: ’’اے بیٹے! میں تجھے ایک وصیت کر رہا ہوں، اسے محفوظ رکھنا، اگر تم نے اسے ضائع کردیا تو دوسری چیزوں کو اس سے زیادہ ضائع کرنے والے ہوگے۔ وضو کرو تو کامل وضو کرو، جب نماز پڑھو تو اس شخص کی طرح پڑھو جو دنیا کو چھوڑ کر جا رہا ہو، ظاہر کرو کہ تمھیں لوگوں سے کچھ نہیں چاہیے، حقیقت میں یہی مالداری ہے، لوگوں سے ضرورت کی چیزیں طلب کرنے سے بچو، حقیقت میں یہی فقیری ہے، ایسی ہر چیز سے بچو جس میں معذرت کرنی پڑے۔‘‘[2] ۴۔علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں: عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردیے گئے اور محمد بن ابی حذیفہ مصر کی گورنری پر غاصبانہ قبضہ کیے ہوئے تھے، کیوں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے انھیں وہاں کا گورنر نہیں مقرر کیا تھا، عثمان رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد انھیں علی رضی اللہ عنہ نے تھوڑے وقت کے لیے مصر کا گورنر مقرر کیا، اس لیے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر مصر کے نواحی علاقے میں بھیجا جس نے محمد بن ابی حذیفہ کو پکڑ کر قید کردیا پھر قتل کردیا۔[3] اس بات کا بھی تذکرہ آتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے بھی انھیں مصر کا گورنر نہیں مقرر کیا تھا، بلکہ انھیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا تھا، جب قتل کردیے گئے تو علی رضی اللہ عنہ نے قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کو مصر کا گورنر مقرر کیا۔[4] چنانچہ ان سے کہا: مصر چلے جاؤ، میں نے تمھیں وہاں کا گورنر بنا دیا ہے، اپنے معتمدین اور جنھیں تم اپنے ساتھ پسند کرو انھیں اکٹھا کرکے لے جاؤ، جب تم وہاں لشکر لے کر پہنچو گے تو یہ تمھارے دشمن کو زیادہ مرعوب کرنے والی اور تمھارے حاکم کی زیادہ عزت افزائی والی بات ہوگی، جب تم اللہ کی مشیت سے وہاں پہنچ جاؤ تو بھلے لوگوں کے ساتھ بھلائی کرو، اور غلط لوگوں پر سختی کرو، عام اور خاص لوگوں کے ساتھ نرمی برتو، بلاشبہ نرمی باعث برکت ہوتی ہے۔[5]
Flag Counter